اشتہار

یومِ وفات:‌ عنایت حسین بھٹی پنجاب میں‌ ‘عوامی گلوکار’ مشہور تھے

اشتہار

حیرت انگیز

عنایت حسین بھٹی نے پچاس کے عشرے میں اپنی گائیکی کے سبب فلمی دنیا میں اپنا عروج دیکھا۔ پاکستان میں فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں جو گیت مقبول ہوئے، وہ انہی کے گائے ہوئے تھے۔ عنایت حسین بھٹی کو پنجاب میں ‘عوامی گلوکار’ کہا جاتا تھا۔ آج پاکستان کے اس معروف گلوکار کا یومِ‌ وفات ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ عنایت حسین بھٹی جب اپنے آبائی شہر گجرات سے لاہور منتقل ہوئے تھے تو ان کا مقصود اپنی تعلیم اور سند کے مطابق وکالت تھا۔ لیکن قسمت نے انھیں گلوکار کے طور پر فلم نگری میں‌ دھکیل دیا۔ بھٹی صاحب نے تین فلموں جلن، ہیر (1955) اور مورنی (1956) میں بطور ہیرو بھی کام کیا لیکن اداکاری کے میدان میں کام یابی ان کا مقدر نہ بنی۔

31 مئی 1999ء کو وفات پانے والے عنایت حسین بھٹی نے پاکستانی فلمی صنعت کو اپنی آواز میں کئی سدا بہار اور لازوال نغمات ہی نہیں‌ دیے بلکہ ایک فلم ساز کی حیثیت سے متعدد کام یاب فلمیں بھی دیں۔ عنایت حسین بھٹی 1929ء میں گجرات میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنا فلمی سفر بطور گلوکار شروع کیا۔ فلم ہیر اور پھیرے میں ان کی آواز نے شائقین کی توجّہ اپنی جانب مبذول کروا لی تھی اور بعد کے برسوں‌ میں‌ ان کے گائے ہوئے گیت بے حد مقبول ہوئے۔ عنایت حسین بھٹی نے 500 فلموں کے لیے لگ بھگ ڈھائی ہزار گانے ریکارڈ کرائے اور شائقینِ سنیما نے انھیں ہیرو کے روپ میں بھی دیکھا۔

- Advertisement -

گلوکار عنایت حسین بھٹی کے اردو زبان میں‌ گیت ریکارڈ نہیں ہوئے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ پنجابی زبان میں‌ اونچی آواز میں گانے پسند کیے جاتے تھے لیکن اردو زبان کی شیرینی اور شاعری ان کی آواز میں‌ نہیں جچتی۔ بھٹی صاحب نے ذاتی پروڈکشن ہاؤس بھی قائم کیا تھا جس کے بینر تلے 50 فلمیں بنائی گئیں۔ 1967ء میں انھوں نے ’’چن مکھناں‘‘ فلم بنائی تھی جس نے کام یابی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ ان کی دیگر کام یاب فلموں میں‌ سجن پیارا، دنیا مطلب دی، عشق دیوانہ، سچا سودا شامل ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں