مسعود رانا کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 25 برس بیت گئے۔ آج پاکستان کے اس معروف گلوکار کی برسی ہے۔ مسعود رانا 4 اکتوبر 1995 کو وفات پاگئے تھے۔
پلے بیک سنگر کی حیثیت سے فلم ہمراہی کے گیتوں نے مسعود رانا کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا اور وہ فلم انڈسٹری میں موسیقاروں اور فلم سازوں کی ترجیح بن گئے۔ فلم ڈاچی کے گیتوں نے بھی ان کی شہرت اور مقبولیت میں اضافہ کیا۔ مسعود رانا کا شمار ان گلوکاروں میں ہوتا ہے جنھیں خاص طور پر ہائی پِچ کے گيت ريکارڈ کرانے کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا۔ رومانوی گیت ہی نہیں طربیہ دھنوں اور غمگین شاعری کو اپنی دل گداز آواز دینے والے مسعود رانا ورسٹائل فن کار تھے اور ان کی اسی خوبی نے انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں ممتاز کیا۔
پاکستان فلم انڈسٹری کے اس عظیم گلوکار کا تعلق سندھ کے شہر میرپورخاص سے تھا جہاں انھوں نے 9 جون 1938 کو آنکھ کھولی۔
مسعود رانا کی آواز میں فلم آئینہ کا نغمہ ’تم ہی ہو محبوب میرے، میں کیوں نہ تم سے پیار کروں‘ بہت مقبول ہوا اور آج بھی سماعتوں میں رس گھول رہا ہے۔ فلم چاند اور چاندنی کا گیت ’تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے‘ ان کی پُرسوز آواز میں اب بھی سنا جاتا ہے اور یہ اپنے وقت کے مقبول ترین گیتوں میں سے ایک تھا۔
گلوکاری کی دنیا کے اس نام وَر اور فلم نگری کے باکمال پلے بیک سنگر نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے 550 سے زائد گيت گائے اور تین دہائیوں سے زائد عرصے تک شائقینِ موسیقی اور مداحوں کے لیے اپنی پُرسوز اور دل گداز آواز میں گیت ریکارڈ کروائے۔ انھوں نے آئینہ، دھڑکن، مجاہد، نائلہ، کون کسی کا، بھیّا، سنگ دل، پاک دامن، احساس، دامن اور چنگاری، میرا ماہی، مرزا جٹ، دھی رانی اور کئی فلموں کے لیے گیت گائے۔