ہفتہ, جولائی 27, 2024
اشتہار

عام لوگ اور کلچر

اشتہار

حیرت انگیز

انسان جب اپنی عقل کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کسی خیال یا نتیجے تک پہنچنے کے لیے تحریک دیتا ہے تو اس پر کئی انکشافات ہوتے ہیں اور بعض ایسی باتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ وہ چونک اٹھتا ہے

اگر اس حوالے سے علمِ سائنس اس کے ماہرین کے بجائے ادبی دنیا میں اہلِ قلم اور خاص طور پر نقّادوں کی بات کریں تو وہ بھی اسی طرز پر اپنے عہد کے معاشرتی حالات کا مطالعہ کرتے ہوئے فرد کے خیالات، احساسات اور طرزِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں اور معاشرے اور اس کی ثقافت اور معاشرے میں بسنے والوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے علاوہ ان کی ذہنی سطح اور طرزِ‌ فکر سے متعلق اکثر کئی دل چسپ باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔

کلیم الدّین احمد اردو تنقید کا بڑا نام تھا جن کی ایک تحریر اس پس منظر میں قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔ وہ لکھتے ہیں؛

- Advertisement -

انسان بالطبع کاہل واقع ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ آسان راستہ پسند کرتا ہے۔ وہ فطری طور پر تہذیب و کلچر کی دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا پسند نہیں کرتا۔

اگر بچّوں کو اپنی راہ پر چھوڑ دیا جائے تو بڑے ہو کر وہ نرے وحشی نظر آئیں گے، وہ اپنے فطری میلات کو کبھی نہ روکیں گے بلکہ اپنی ہر خواہش کو واقعہ بنانا چاہیں گے۔ خود غرضی ان کا شیوہ ہوگا اور دوسروں کی بھلائی کے لئے وہ اپنی خواہشوں کا خون نہیں ہونے دیں گے۔ غرض ان کے جذبات و خیالات، تعلیم و تہذیب، تربیت، کلچر کی خوبیوں سے بے بہرہ ہوں گے۔ انسان کو تہذیب کے زینوں پر چڑھنے میں کاوش سے کام لینا پڑتا ہے۔ اسے ہمیشہ ہوشیار رہنا ہوتا ہے۔ جہاں غفلت کی، پھر ساری محنت رائیگاں گئی۔ پھر ازسرِ نو محنت کرنی ہوگی۔ آج کل انسان کچھ اسی قسم کی غفلت کا شکار ہو رہا ہے۔ وہ آسان راستہ پسند کرتا ہے۔ دماغی اور جذباتی کلفتیں اس کے لئے سوہان روح ہیں۔ اس لئے وہ ان کلفتوں سے اپنا دامن بچائے رہنا چاہتا ہے۔ یہ فطرت کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ وہی چیزیں جو تہذیب کی نشانی ہیں وہی تہذیب و کلچر کے مٹانے پر تلی ہوئی ہیں۔

بہر کیف اس بات سے کسی کو انکار نہ ہوگا کہ عام لوگوں کی دماغی اور جذباتی سطح کچھ زیادہ بلند نہیں۔ عموماً ایسے لوگوں کی پسند کسی معیار کا سہارا نہیں ڈھونڈتی اور ان کا فنی معیار، ان کا ادبی مذاق بہت بلند نہیں ہوتا۔ اگر انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے، اگر ان کے لئے صرف انہی کی پسند کی چیزیں مہیا کی جائیں تو پھر ان کے مذاق میں کوئی لطافت اور پاکیزگی نہیں آسکتی۔ انہیں کسی بلند فنی معیار کا احساس نہیں ہوسکتا، وہ ہمیشہ اپنی پست ذہنی دنیا میں مگن رہیں گے۔ انہیں کسی دوسری بہتر اور اعلیٰ دنیا کی تلاش نہ ستائے گی۔ اگر انہیں کسی زیادہ اچھی اور حسین دنیا کی طرف بلایا بھی جائے تو وہ اس کی طرف شاید متوجہ نہ ہوں گے، مثلاً سستے ناولوں، رومانوی افسانوں، جاسوسی قصوں کو لیجیے۔ کتنے لوگ ان چیزوں کو پڑھتے ہیں اور ان سے اپنا دل بہلاتے ہیں۔ ان چیزوں میں فنی خوبیاں کچھ بھی نہیں ہوتیں اور نہ کسی کو فنی خوبیوں کی جستجو ہوتی ہے۔

بات یہ ہے کہ دنیا میں ہمارے میلانات، ہماری خواہشیں پھلتی پھولتی نہیں۔ جو دل چاہتا ہے وہ ہو نہیں پاتا، شکستِ امید ہماری بے اطمینانی کا سبب ہوتی ہے اور ہم اس بے اطمینانی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ نجات ہمیں رومانی افسانوں، جاسوسی قصوں کی مدد سے مل جاتی ہے۔ ان کی مدد سے ہم ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ہمارے میلانات، ہماری خواہشوں، امنگوں اور امیدوں کو ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ اسی لئے ہمیں اس دنیا میں ایک مسرت، ایک روحانی سکون محسوس ہوتا ہے اور اس سکون کے آگے فنی خوبیوں کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ یہ سکون مضر ہے اور ادبی حسن کی کمی ہمارے مذاق کو پست سے پست تر بنا دیتی ہے۔

اگر یہ سستی کتابیں صرف دل بہلانے کا ذریعہ ہوتیں، اگرایک جماعت ان کتابوں کی مدد سے فرصت کی گھڑیاں آسانی اور دل چسپی کے ساتھ گزار سکتی اور بس، تو پھر شاید کسی کو بھی ان کتابوں کی مذمت کرنے کا حق نہ ہوتا لیکن مشکل یہ آپڑتی ہے کہ یہ کتاب تفریح کے ساتھ ہمارے مذاق کو بگاڑ دیتی ہیں۔ جس کی طبیعت ان سے مانوس ہو جاتی ہے پھر اسے دوسری چیزیں خصوصاً ایسی چیزیں جو ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں، بالکل ناپسند ہوتی ہیں۔ اڈگر والس کے آگے شیکسپئر کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ جو اچھا، ستھرا، سنجیدہ مذاق رکھتے ہیں، جو ناقدانہ اوصاف کے حامل ہیں وہ بھی جاسوسی افسانوں اور ناولوں سے شوق کرنے کے بعد سنجیدہ کتابوں کی طرف رجوع کرنے میں ایک قسم کی رکاوٹ محسوس کرتے ہیں اور جو ناقدانہ اوصاف کے حامل نہیں جو اچھا ستھرا، سنجیدہ مذاق نہیں رکھتے اور زیادہ تعداد اسی قسم کے لوگوں کی ہوتی ہے۔ انہیں تو جاسوسی یا رومانی افسانوں اور ناولوں کا ایسا چسکا پڑ جاتا ہے کہ وہ کسی سنجیدہ کتاب کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے۔

معاشیات کا ایک اصول ہے کہ جن چیزوں کی مانگ ہوتی ہے تو ان چیزوں کے مہیا کرنے کا سامان بھی ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں رومانی اور جاسوسی قصوں کی مانگ ہے اور اس ضرورت کی وجہ سے مختلف قسم کے ذرائع پیدا ہو گئے ہیں۔ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد پیدا ہو گئی ہے جن کی زندگی کا مقصد بس اسی قسم کے قصوں کا لکھنا ہے، اسی کو انہوں نے اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ یہی ان کا اچھا خاصا ذریعۂ معاش ہے۔ یہ قصے تجارتی اصول پر لکھے یا لکھوائے جاتے ہیں یعنی جس طرح سگریٹ، سگار، لپ اسٹک، پیٹنٹ دواؤں کی تجارت ہوتی ہے، اسی طرح اس قسم کی کتابوں کی تجارت ہوتی ہے اور تجارت کا اصل الاصول ہے نفع۔

یہاں بھی نفع کا خیال سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لکھنے والے نفع میں ہوتے ہیں اور لکھنے والوں سے زیادہ پبلشرز دولت جمع کر لیتے ہیں۔ اگر نقصان میں کوئی رہتا ہے تو بیچارہ پڑھنے والا۔ وہ فوری، ناپائیدار مسرت کے لئے اپنے ذہن کو ہمیشہ کے لئے مجروح و معطل بنا لیتا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں