منگل, جنوری 7, 2025
اشتہار

طلسمی رنگوں میں بھیگے ہوئے گھر!

اشتہار

حیرت انگیز

برطانیہ کا راج تھا اور ہندوستان کی حیثیت متحدہ علاقہ جات کی تھی۔ اردو کے ایک بڑے شاعر منیر نیازی نے اسی زمانے میں مشرقی پنجاب کی ایک بستی میں آنکھ کھولی۔ یہ ہوشیار پور سے متصل تھی۔

مشرقی پنجاب کا زرخیز علاقہ اور قدرتی ماحول کے ساتھ یہاں کی خوب صورت وادیاں اور پہاڑی سلسلے بھی مشہور ہیں۔ یہ تحریر منیر نیازی کے آبائی علاقہ کی تخلیقی جھلک دکھاتی ہے۔ یہ اشفاق احمد کی تحریر ہے اور منیر نیازی کے فن و شخصیت سے متعلق مضمون کا حصّہ ہے جو اس ماحول، جغرافیائی اور سماجی صورت حال کو سامنے لاتی ہے:

’’اگر کوہِ شوالک سے اس بیدردی کے ساتھ جنگل نہ کاٹے جاتے تو پہاڑوں سے امڈتا ہوا سیلاب ہوشیار پور کی سر زمین کو یوں ہی اپنی لپیٹ میں نہ لے سکتا تھا۔ آبادی اس طرح ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہوتی۔ اور اگر ہوتی تو ان کے درمیان رسل و رسائل کی آسانیاں تو برقرار رہتیں۔‘‘

- Advertisement -

’’ہوشیار پور اس کے گاؤں کے درمیان چو کا ایک لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا ہے برسات کے دنوں میں پہاڑ ی نالے اسے لبالب بھر دیتے ہیں اور جب پانی کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو ریت کا لق و دق صحرا اپنے شہر اور گاؤں کے درمیانی انگڑائی کی طرح پھیلنے لگتا ہے۔ اندھیری راتوں میں چور ان ریگزاروں میں سستا کر اپنے کام پر نکلتے ہیں۔ قبرستان کے اردگرد کبڑی کھجوروں کے جھنڈ میں مدھم سرگوشیاں ہوتی ہیں، کالی سیاہ ڈراؤنی راتوں میں اس ریگ زار کے ذرے ایک دوسرے سے چمٹے صبح کے انتظار میں آنکھیں جھپکا کرتے ہیں۔ اور کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اندھیری راتوں میں کوئی دیوانہ چاند کی تلاش میں ادھر آ نکلتا ہے اور رات بھر سانپوں سے بھرے جنگل کی آوازیں سنتا رہتا ہے۔ صبح شہر سے گاؤں جانے والا کوئی بھی مسافر اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور ریت کے ذرے پھر سے دھوپ میں چمکنے لگتے ہیں۔ ‘‘

’’یہ گاؤں، گاؤں بھی نہیں قصبہ بھی نہیں۔ اسے نوآبادیاتی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اور شہر کا سٹیلائٹ ٹاؤن بھی نہیں۔ ایک بستی ہے جو بستے بستے بڑی دیر تک اور بڑی دور تک بس گئی ہے۔ چھوٹی اینٹوں کے بل کھاتی ہوئی گلیاں نیچی چھتوں کے اونچی کرسیوں والی مکان رنگ برنگے شیشوں والی بند کھڑکیاں اور کھلے دروازوں پر بانس اور سرکنڈوں کی تیلیوں کی چھتیں۔‘‘

’’اس بستی میں پرانے منصب داروں کے گھر تھے۔ اب ان میں چمگادڑوں اور ابابیلوں کا بسیرا ہے۔ اس نگری میں ان لوگوں کے دو منزلہ مکان ہیں جو تلاش روزگار کے سلسلے میں افریقہ کویت یا بحرین میں بستے ہیں۔ ان لوگوں کے گھر والے یہاں رہتے ہیں۔ ان کی لڑکیوں کے سنگار میز اوپر کے کمروں میں ہوتے ہیں ۔ ان کی میزوں پر افریقہ کویت اور بحرین کے تحفے پڑے ہوتے ہیں۔ پھر یہ لڑکیاں افریقہ کویت یا بحرین چلی جاتی ہیں۔ اور جب لوٹتی ہیں تو ان کی چھوٹی چھوٹی بہنیں جوان ہو چکی ہوتی ہیں۔ جب وہ آتی ہیں تو افریقہ کی آبنوسی رکابیوں میں غیر ملکی شیرینیاں ولایتی رومالوں سے ڈھانپ کر ان چھوٹی اینٹ کی گلیوں میں چلتی ہیں جو آگے نکل کر جوگیوں کے مٹھ کی طرف نکل جاتی ہیں۔ یہ مٹھ ویران ہے اس کی کوٹھڑیاں اور کنڈ ڈھکے چکے ہیں۔ دھرم شالہ کے بس قدم آدم کھولے رہ گئے ہیں اور ان کھولوں میں پھونس کی چھت تلے گونگا رہتا ہے جب سرمئی شام اندھیری رات میں تبدیل ہو جاتی ہے تو بچے اس گلی کے آخری سرے تک جانے سے کتراتے ہیں۔ نہیں کھنڈروں سے نہیں اس گونگے سے خوف آتا ہے جس کی بے زبانی ان گری پڑی دیواروں میں صدائے بازگشت بن کر ہر وقت گونجتی رہتی ہے۔ ان بچوں نے آج تک کسی سے بات نہیں کی کہ یہ گونگا کئی صدیوں سے زندہ ہے۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ ایک دلدوز چیخ مار کر پھونس کی جھونپڑی جلا دیتا ہے، خود اس میں بھسم ہو جاتا ہے اور اگلی صبح اسی خاکستر سے اٹھ کر ایک سو سال زندہ رہنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ یہ بات ہر بچے کے ذہن میں آپ سے آپ جنم لیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اس بستی میں ان لوگوں کے گھر ہیں جو بڑے گھروں کے کارندے ہیں، کارندوں کی عورتیں بالوں میں پیتل کے کلپ لگا کر اور ماتھے پر پھول چڑیاں بنا کر گھروں میں کام کرنے آتی ہیں۔ دھاگے کی گولیوں سے کچے رنگ کے سرخ لیبل نکال کر ہونٹوں پر سرخی کی دھڑی جماتی ہیں اور ادھر ادھر دیکھ کر بڑے لوگوں کے دیوان خانوں میں گھس جاتی ہیں۔ انہیں بچوں نے ان کو دیوان خانوں میں داخل ہوتے اور وہاں سے نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہی بچے رات کو نانی اماں سے چڑیلوں کی کہانیاں سنتے ہیں اور انہیں مکانوں کے ہر چھجے کی اینٹ خون دکھائی دیتی ہے جسے بچے کچے لیبل کا رنگ…‘‘

’’کوہ شوالک سے اگر جنگل اس بے درد سے نہ کاٹے جاتے تو یہاں بھی گھٹا کا وہی رنگ ہوتا جو شمال کی گھٹاؤں کا ہوتا ہے۔ سرمئی اور دھولے بادل آگے بڑھتے برف پوش چوٹیوں اور شجر پار تراہوں سے ٹکراتے اور وادی میں جل تھل ہو جاتا۔ کوہ شوالک تو بے برگ و بار پہاڑ ہے۔ ا س کی چوٹیوں پر ٹھنڈک کہاں یہاں تو خود تبخیر کا عمل جاری ہے اس کے چاروں اور گھمڈے والی گھٹائیں اتنی گہری اور اس قدر نیلی اور ایسی دلدار ہوتی ہیں کہ جہاں جہاں سے گزرتی ہیں زمین کا وہ حصہ کشش ثقل سے عاری ہو جاتا ہے۔ پھر کوئی ذی روح زمین کے اس حصے پر قدم نہیں جما سکتا اور گھٹائیں اسے اچک کر اپنی گود میں اٹھا لیتی ہیں۔ آموں کے باغوں پر اڑتی ہیں تاریک ریگ زاروں پر جھولا جھلاتی ہیں اور گئے موسموں کے باس سنگھا کر تڑپاتی ہیں۔‘‘

’’یہ منیر نیازی کی بستی تھی جو اس کے اردگرد کم اور اس کے ذہن کی گہرائیوں میں طلسمی رنگوں میں بھیگے ہوئے گھر بسا کر بستی جاتی تھی۔‘‘

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں