ملکی و غیر ملکی شکاریوں نے پاکستان کے قومی جانور مارخور کے شکار کے لیے گلگت بلتستان اور کشمیر کا رخ کر لیا، شکاریوں کے نرغے میں مارخور معدومی کے خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔
پاکستان میں پہاڑی بکری کی نہایت قیمتی نسل مارخور کو قانونی طور پر بھی شکار کیا جاتا ہے، جس کے لیے نومبر سے لے کر اپریل کے مہینے تک قانونی شکار کا موسم چلتا ہے، تاہم اس دوران غیر قانونی شکار بھی جاری رہتا ہے۔
[bs-quote quote=”شکاریوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مارخور شکار کرنے کا اعزاز ضرور حاصل کریں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]
پاکستان میں دیگر نایاب اور قیمتی پرندوں کا بھی باقاعدہ شکار کیا جاتا ہے، اور اس کے لیے فیسیں مقرر ہیں تاہم مارخور اس حوالے سے سرِ فہرست ہے کہ اس کے شکار کی فیس ایک لاکھ ڈالر ہے، جس کے لائسنس کے لیے مقامی اور غیر ملکی شکاری بولی دیتے ہیں۔
مارخور کے شکار کے لیے بولی گلگت بلتستان کے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے دفتر میں منعقد کی جاتی ہے، جہاں جنگلی حیات اور ماحولیات کے شعبے کے وزرا اور حکام بھی موجود ہوتے ہیں، ہر سال ایک سروے کے بعد ٹرافی شکار کے لیے کوٹا بھی مقرر کیا جاتا ہے۔ مارخور کے شکار کے لیے ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا۔
شکاریوں کے نزدیک اچھا وقت دسمبر کے مہینے کا ہوتا ہے، کیوں کہ جنوری، فروری اور مارچ میں موسم کے تغیر کے باعث شکار میں ناکامی ہوسکتی ہے، تاہم اپریل میں برف پگھلنے کے بعد سبز گھاس اگتی ہے تو مارخور پہاڑوں سے خوراک کی تلاش میں نیچے اترتے ہیں اس لیے یہ مہینا بھی شکار کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔
گلگت بلتستان میں مارخور 2 ہزار سے 3 ہزار میٹر کی بلندی پر پلتے ہیں، تاہم کشمیر کے مارخور کا تعاقب دیگر پہاڑی شکاروں کی مانند بے پناہ جسمانی مشقت کا حامل ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت: امریکی شکاری کا ایک لاکھ ڈالر کے عوض مارخور کا شکار
یہ پہاڑی بکرے خوب صورت جنگلی حیات میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں بالخصوص نر ماخور جس کے سینگ لمبے اور چکردار ہوتے ہیں، برفانی لیپرڈ اور بھیڑیوں سے بچنے کے لیے یہ خطرناک کھڑی چٹانوں میں اپنا مسکن بناتے ہیں، یہ کھڑی چٹانیں انھیں شکاریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ شکاریوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مارخور شکار کرنے کا اعزاز ضرور حاصل کریں، سرکاری سطح پر بھی اس شکار کو ہنٹنگ ٹرافی ایوارڈ کہا جاتا ہے۔
مارخور چوں کہ نایاب جانور ہے اور صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے، اس لیے قانونی اور غیر قانونی شکار، محکمہ جنگلی حیات کی غفلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کی معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پرندوں کا شکار، امریکی ڈالرز میں فیس مقرر
یہ مغربی کوہِ ہماليہ ميں اپنا ٹھکانا رکھتا ہے، مارخور کا کندھے تک کا قد 115-65 سينٹی ميٹر تک اور اس کے بل کھاتے سينگوں کی لمبائی نر مارخور 160 سينٹی ميٹر اور مادہ 25 سينٹی ميٹر تک ہوتی ہے۔
يہی سينگ شکاريوں کو ان خوب صورت جانوروں کی طرف راغب کرتے ہيں جو کہ شکاری بہ طور ٹرافی رکھتے اور بيچتے ہيں، سينگ کے علاوہ گوشت حاصل کرنے اور بيچنے کی لالچ بھی اس کے غير قانونی شکار پر مائل کرتی ہے۔
پاکستان کے اس خوبصورت قومی جانور کی نایاب نسل کو معدومی سے بچانے کے لیے حکومتِ پاکستان کو اس کے ہر قسم کے شکار پر پابندی عائد کرنی ہوگی۔