کراچی: اردو کے مایہ ناز شاعر، نقاد اور کالم نگار جمیل الدین عالی انتقال کرگئے۔
لازوال ملی نغموں نےخالق اورمعروف ادیب، نقاد جمیل الدین عالی کراچی میں تویل علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے ۔
نوابزادہ مرزا جمیل الدین احمد خان 20 جنوری 1926 میں دہلی میں پیدا ہوئے، جمیل الدین عالی کے والد نواب علاؤالدین احمد خان مرزا غالب کے دوست اور شاگردوں میں سے تھے،جمیل الدین عالی نے ابتدائی تعلیم دہلی سے حاصل کی ، جمیل الدین عالی 1951ء سے 1971 تک سول سروس آف پاکستان میں کام کرتے رہے ۔
جمیل الدین عالی نے 1977 ء میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے عام انتخابات میں حصہ لیا،جمیل الدین عالی ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے چھ سال کیلئے سینیٹر بھی رہے، جمیل الدین عالی ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف تھے، جمیل الدین عالی کی کتابوں میں’ اے میرے دشت سخن‘، غزلیں، دوہے ، گیت جیوے ، جیوے پاکستان، لاحاصل، نئی کرن ، دنیا میرے آگے، تماشہ میرے آگے، آئس لینڈ، حرفے شامل ہیں۔
جمیل الدین عالی نے قومی نغمے جن میں ”اے وطن کے سجیلے جوانوں“ 1965 میں تحریر کیا، جمیل الدین عالی نے” جیوے جیوے پاکستان “جیسے ملی نغمے سے شہرت حاصل کی،جمیل الدین عالی کے مشہور ملی نغموں میں ”میرا پیغام پاکستان“، ہم مائیں، ہم بہنیں ہم بیٹیاں، اور جو نام وہی پہچان جیسے ملی نغمے شامل ہیں جمیل الدین عالی نے ’اتنے بڑے جیون ساگر میں تونے پاکستان دیا“جیسے ملی نغمے گائے۔
انہوں نے نہ صرف شاعری میں طبع آزمائی کی بلکہ سفرنامہ نگاری اوراخباری کالم بھی ان کی ادبی اورعلمی شخصیت کی پہچان بنےجمیل الدین عالی کو 2004 میں ہلال امتیاز 1991 میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی ادبیات پاکستان کا ’’کمال فن ایوارڈ سمیت درجنوں ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ان صحابزادے کے مطابق جمیل الدین عالی کی عمراناسی برس تھی، جمال الدین عالی کو 3 روز قبل شدید تشوتش ناک حالت میں استپال منتقل کیا گیا تھا ، موت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوئی، ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق دوپہر 4 بجے کر دی تھی.
ان کی نماز جنازہ کل ڈیفنس میں ادا کی جائے گی، مرحوم نے سوگواران میں پانچ بچے تین بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں.