پاکستان میں جس دور میں فائن آرٹس کا شعبہ اکثر لوگوں کے لیے نیا تھا اور اس کی باقاعدہ تعلیم کے لیے ادارے نہیں بنائے گئے، اس وقت بھی شجاع اللہ اور ان جیسے کئی قابل و باصلاحیت مصور تخلیقی کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ بعد میں جب ایسے ہی فن کاروں کی مساعی سے پاکستان میں جامعات میں باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا تو انھوں نے اپنا فن بحیثیت استاد اگلی نسل تک منتقل کیا۔
استاد شجاع اللہ جامعہ پنجاب کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل کالج آف آرٹس میں استاد رہے اور منی ایچر پینٹنگز میں اپنے کمالِ فن کے سبب پہچانے گئے۔ 20 اپریل 1980ء کو پاکستانی مصور شجاع اللہ وفات پاگئے تھے۔
استاد شجاع اللہ کی پیدائش الور کی ہے جہاں ان کے بزرگ دہلی سے آکر بسے تھے۔ انھوں نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے دوران انھیں مصوّری کا شوق ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے والد بھی اچھے مصوّر تھے اور انھیں دیکھ کر استاد شجاع کو بھی اس فن میں دل چسپی پیدا ہوئی۔
شجاع اللہ کو ان کے والد نے منی ایچر پینٹنگ بنانے کے ساتھ اس پینٹنگ کے لیے خصوصی کاغذ، جسے وصلی کہا جاتا ہے، تیّار کرنے کی بھی تربیت دی۔ قیامِ پاکستان کے بعد استاد شجاع اللہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور راولپنڈی میں سکونت اختیار کی، بعد میں لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں وفات پائی۔
استاد شجاع اللہ منی ایچر پینٹنگ کے مختلف اسالیب جن میں دکنی اور مغل شامل ہیں، ان کے ماہر تھے۔ انھیں پاکستان میں حاجی محمد شریف کے بعد منی ایچر پینٹنگ کا سب سے بڑا مصوّر تسلیم کیا جاتا ہے۔