اتوار, نومبر 17, 2024
اشتہار

وزیراعظم خود عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کریں‘ وکیل جماعت اسلامی

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت کل تک لیےملتوی ہوگئی،جماعت اسلامی کے وکیل کل بھی اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کےپانچ رکنی لارجربینچ نےپاناماکیس کی۔

سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پرجماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ گزشتہ سماعت کے سوالات سے تاثر ملاجیسے عدالت فیصلہ کر چکی ہے۔

- Advertisement -

جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم سوالات صرف سمجھنے کےلیے پوچھتے ہیں،سوالات فیصلہ نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ کیا وزیراعظم کی تقریر پارلیمانی کارروائی کا حصہ تھی؟۔

جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ وزیراعظم کی تقریر اسمبلی کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی،انہوں نےکہا کہ استحقاق آئین اورقانون کے مطابق ہی دیا جا سکتا ہے۔

انہوں نےکہا کہ منگل کو اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر ڈے ہوتا ہے،جس پرجسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا اسپیکر کے پاس اختیار نہیں رولز معطل کرکے کوئی اور کارروائی کرے۔انہوں نے کہا کہ کیا اسپیکر نے وزیر اعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دی تھی۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ اگر وزیر اعظم نے ذاتی وضاحت دینی تھی تو ایجنڈے میں شامل ہونا ضروری تھا،جس پر جسٹس گلزاراحمد نےکہا کہ کیاوزیر اعظم کی تقریر پر کسی نے اعتراض کیا۔

توفیق آصف نے کہا کہ اپوزیشن نے وزیراعظم کی تقریر کے بعد اسمبلی سے واک آؤٹ کیا تھا۔جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ توفیق آصف آپ آرٹیکل 69 پڑھیں،اس پر دلائل دیں،انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو آرٹیکل 69 مکمل کر رہاہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر آرٹیکل 69 کے زمرے میں نہیں آتی،انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر ذاتی الزامات کے جواب میں تھی۔

جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ اگر قواعد کی خلاف ورزی ہوئی توآپ کے اراکین نے آواز اٹھائی تھی،جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں اسپیکر کو وزیر اعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دیناچاہیے تھی۔

جسٹس گلزار نے استفسارکیا کہ وزیراعظم کی تقریر ریکارڈ سے حذف کی گئی؟ جس پر توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر ریکارڈ کا حصہ ہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ تقریر اسمبلی کارروائی کا حصہ ضرور ہے مگر اس کو استحقاق حاصل نہیں،انہوں نےکہا کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں تقریر پیر کے روز کی۔

توفیق آصف نے کہا کہ اسپیکر منگل کے روز قواعد معطل کر سکتے ہیں،جس پر جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ کیا جس دن گوشت کا ناغہ ہوتا ہےاس دن تقریر نہیں ہو سکتی؟۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے پارلیمانی استحقاق سے متعلق آسٹریلوی دانشور کا آرٹیکل پیش کر دیا،جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کیا یہ کوئی بریگزیٹ کی دستاویز ہے جو ہمیں پیش کی گئی؟۔

جماعت اسلامی کے وکیل کی وزیراعظم کی تقریر کا ریکارڈ اسپیکر سے طلب کرنے کی استدعا کردی جس پر جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ کیا عمران خان نے تقریر کا جو ٹرانسکرپٹ لگایا ہے وہ غلط ہے؟۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ تقریر کےمتن سے کسی فریق کا اختلاف نہیں تو ریکارڈ کیوں منگوایا جائے؟۔جس پرممکن ہے ترجمہ کرتےوقت کوئی غلطی ہو گئی ہو۔

جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ وزیراعظم کی تقریر کیس کا اہم ثبوت ہے،جس پر جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ کیا ہم یہاں شواہد ریکارڈ کر رہے ہیں۔

توفیق آصف نے کہا کہ عدالت چاہے تو شواہد ریکارڈ کر سکتی ہے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ ہم آپ کی جمع کرائی ہوئی تقریر کو درست مان لیتے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کے وکیل نے ثبوت کا ذکر نہیں کیا، قانونی نکات کا انبار لگا دیا،جسٹس عظمت سیعد نےکہاکہ لگتا ہے باتیں دہرا کر آپ سماعت میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔

جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ آپ عدالت سے کم اور میڈیا سے زیادہ مخاطب لگتے ہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ آپ چاہے جتنے دلائل دیں،ہم خاموشی سے سنیں گے۔

جماعت اسلامی کےوکیل نے وزیراعظم کی تقریر کے چند نکات پڑھے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ بتائیں وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کیا چھپایا ہے؟۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے دبئی فیکٹری کے افتتاح کی تصویر تقریر میں پیش کی۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کے دفاع کے لیے وزرا عدالت آ رہے ہیں،حکومتی مشینری کیس کا دفاع کر رہی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں عدالت کے باہر جو کچھ کہاجاچکا بہت ہے،انہوں نے کہا اب سب لوگ انتظار کریں،جس نے جو برا بھلا کہنا تھاکہہ دیا۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ یہ کیس حکومت کی کارکردگی کے خلاف نہیں بلکہ ایک خاندان کے خلاف ہے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ پوری حکومت پر الزام نہیں پھر بھی ساری حکومت پاناما کادفاع کر رہی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ کیس کو چلنے دیں،انہوں نے کہا کہ سارے لوگ اپنی کمنٹری خود تک رکھیں اور فیصلے کا انتظار کریں۔

پاناماکیس کی سماعت کے وقفے کے دوران سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتےہوئےکہا کہ جج صاحب نےکہاسرکاری وکیل نےاب تک ثبوت نہیں دیے۔

عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید نے کہا کہ 2ہفتےمیں پاناما کےہاتھی کی طرف کوئی نہیں آیا،کیس قانون اورضابطوں کی طرف جارہے ہیں۔

شیخ رشید کا کہناتھاکہ ملکیت پرفیصلہ عدالت نے کرنا ہے،انہوں نے کہا کہ آئی سی آئی جےرپورٹ کومکمل طورپردرست مانتاہوں۔

تحریک انصاف کے رہنمافواد چودھری نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سےگفتگوکرتے ہوئے کہاکہ آج جرمن اخبار نےنئی دستاویزات جاری کیےہیں۔

فواد چوپدری کا کہناتھاکہ اب لازم ہے مریم نوازکانام ای سی ایل میں ڈال دیاجائے،انہوں نےکہا کہ اربوں روپے کے تحائف کاتبادلہ ہوا، پیسے کہاں سے آئے۔

تحریک انصاف کےرہنما کا کہناتھاکہ مریم نواز05-2004میں کمپنیاں کس طرح چلا رہی تھیں،انہوں نے کہا کہ قوم جاننا چاہتی ہے اربوں روپے کیسے باہرگیا اور پھر واپس آیا۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنماامیر مقام نے کہا کہ بغیرثبوت کے سیاسی قیادت پرالزامات لگائے جاتے ہیں،انہوں نے کہا کہ کسی کے پاس ثبوت ہیں توپیش کرے،عدالت فیصلہ کرے گی۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا،انہوں نے کہا کہ پارلیمانی تقدس سے متعلق سپریم کورٹ کے کئی فیصلےہیں۔

جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کسی کا جھوٹ ثابت کرنے سے پہلے سچ ثابت کرنا پڑتا ہے،انہوں نےکہا کہ سچ ثابت کرنے کے لیےانکوائری کرنا ہوتی ہے۔

جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ جب جب حقیقت کا ہی پتہ نہیں چلا تو پھر جھوٹ کا تعین کیسے ہو گا،جس پر توفیق آصف نےرضوان گل جعلی ڈگری کیس کا حوالہ دیا۔جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ وہ مقدمہ الیکشن ٹریبونل سے شروع ہوا تھا سپریم کورٹ سے نہیں۔

جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ تحقیقات کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ کیا،جس پر جماعت اسلامی کےوکیل نے کہا کہ وزیراعظم نےاپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ میں عدالت کے دائرہ اختیار پر دلائل دوں گا،جس پر جسٹس گلزار نےکہاکہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔

جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ ہم قرار دے چکے آرٹیکل 184/3 کے تحت سن سکتے ہیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ شریف خاندان کہتا ہے کاروبار میاں شریف کا تھا،انہوں نے کہا کہ اس سے وزیراعظم کا تعلق ثابت کریں۔

جسٹس گلزار نےکہا کہ 2004میں میاں شریف کی وفات تک وہ کاروباردیکھتے رہے،انہوں نےکہا کہ کاروبار سے وزیراعظم کا تعلق کیسے بنتا ہے؟ جسٹس عظمت سعیدنےکہاکہ دبئی مل کا کچھ نہ کچھ ریکارڈ موجود ہے،انہوں نےکہا کہ ریکارڈ سچا ہے یا جھوٹا؟ کچھ تو ہے۔

جسٹس گلزار نےکہا کہ کون سا ایسا ریکارڈ ہے جو نواز شریف نے جمع نہیں کرایا،جس پر توفیق آصف نے کہا کہ دبئی مل طارق شفیع کے نام ہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ دبئی فیکٹری کی کوئی بینک ٹرانزیکشن نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ رقم دبئی سے جدہ جانے کا بھی ریکارڈ نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے مخدوم علی خان سے استفسار کیاکہ کیا جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیراعظم نے آپ کو کوئی ہدایت دی، جس پر وزیراعظم کےوکیل نےکہا کہ وزیراعظم بیرون ملک ہیں، آج واپس آئیں گے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نےمخدوم علی خان سے کہا کہ جتنا جلدی ہو جماعت اسلامی کی درخواست پر جواب جمع کرائیں۔

جسٹس عظمت سعید نے جماعت اسلامی کےوکیل توفیق آصف سےکہا کہ آپ ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دیتے،جس پر انہوں نے جواب دیاکہ ایک وقت میں ایک سوال ہو تو جواب دوں۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ ثبوت اسی نے دینا ہے جس پر الزام ہے،انہوں نےکہا کہ وزیراعظم نے خود کہاثبوت ہیں لیکن نہیں دیے۔

توفیق آصف نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم خود عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کر دیں اور قوم کو امتحان سے نکالیں۔

جماعت اسلامی کےوکیل نے کہا کہ حضرت عمر نے کرتے کے سوال پر استثنیٰ نہیں مانگاتھا،وزیر اعظم یہاں روز استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔

توفیق آصف نےکہا کہ یوسف رضاگیلانی کو بھی سپریم کورٹ نے نااہل کیا،جس پر جسٹس عظمت سعیدنےکہاکہ این آر او کیس میں عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کا نوٹس ہوا۔

جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے پر گیلانی کو توہین عدالت کا مجرم قراردیا گیا،انہوں نےکہانااہل کرنے سے پہلے گیلانی کے خلاف عدالتی فیصلہ موجود تھا۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت سچ جاننا عوام کا حق ہے،جس پر جسٹس عظمت سعیدنےکہاکہ کیا کسی خاندان کی زندگی کے بارے میں آرٹیکل 19اے لگایا جا سکتاہے۔انہوں نےکہا کہ کیا آپ پر آرٹیکل 19اے کا اطلاق ہو سکتا ہے۔

توفیق آصف نےکہا کہ وزیر اعظم عوامی عہدہ رکھتے ہیں جبکہ یہ ان کاذاتی معاملہ تھا،انہوں نےکہا کہ ایان علی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ عتیقہ اوڈو اور ایان علی کو قومی اسمبلی تک رسائی ممکن نہیں،جس پر جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ طے کر لیں آپ ایان علی کے وکیل ہیں یاعتیقہ اوڈھوکے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نےجماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف سےکہا کہ آپ ہمیں مطمئن کریں،انہوں نےکہاکہ وزیراعظم نے کاغذات نامزدگی میں کیا چھپایا؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ آپ نے اپنےمقدمے میں غلط روٹ اپنایا ہوا ہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ میں عدالت کی معاونت کی کوشش کر رہا ہوں،جس پر جسٹس گلزار احمد نےکہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیا پاکستان میں تھی؟۔انہوں نےکہا کہ مل پاکستان میں تھی تو التوفیق کیس لندن میں دائر کیوں ہوا؟۔

توفیق آصف نےکہا کہ التوفیق کیس بارے شریف فیملی خود بتاسکتی ہے،جس پر جسٹس عظمت سیعد نے کہا کہ آپ کا نام توفیق ہے کیا التوفیق آپ کا بینک تو نہیں؟۔

جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ کیا آپ اپنی گزارشات پر ہم سے ڈیکلریشن چاہتے ہیں،جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ بالکل چاہتا ہوں۔انہوں نےکہا کہ نواز شریف کے دونوں بیانات میں تضاد ہے۔

توفیق آصف نےکہا کہ قطری خط نواز شریف کے بچوں نے پیش کیا،انہوں نےکہا کہ پارلیمنٹ میں نواز شریف نے اپنا اور خاندان کا دفاع کیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق بار ثبوت شریف خاندان پر ہے یہ باتیں ہوچکیں۔

واضح رہےکہ پاناماکیس میں وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت پرجماعت اسلامی کے وکیل کی جانب سے دلائل دیے گئے جس کے بعد سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں