اسلام آباد:سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، جسٹس اعجاز افضل کا سوال کیا کہ مصدقہ دستاویزات آخر کون فراہم کرے گا؟
تفصیلات کے مطابق چودہ دن بعد سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت آج پھر ہوگی، جسٹس عظمت سعید شیخ کی علالت کے باعث سماعت ملتوی ہوئی تھی، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
جسٹس آصف سعید کا کہنا ہے کہ جسٹس شیخ عظمت کو شفا عطا کرنے پر اللہ کے شکر گزار ہیں۔
مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ جسٹس شیخ عظمت کو صحتیابی پر مبارکباد اور خوش آمدید کہتا ہوں۔
سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت نے میرے سامنے کل آٹھ سوال رکھے ہیں، نہ یہ ٹرائل ہے اور نہ میرے موکل گواہ ہیں، جتنا ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق جواب دوں گا، چالیس 45 سال کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، 1999 کے مارشل لا کی وجہ سے خاندانی دستاویزات ضائع ہوگئے۔
سلمان اکرم راجہ نے سوال کیا کہ عدالت انکوائری کے بغیر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی۔
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میری رائے کے مطابق بغیر انکوائری کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکتا، وزیر اعظم کے خلاف کوئی چارج نہیں، اس لئے وزیراعظم کے بچوں کے خلاف بھی کارروائی ممکن نہیں، میرے قانونی جواب تین بنیادوں پر ہیں، اگر بچوں کو نیب کے قانون کے تحت ملزم مانا جائے تو بار ثبوت میرے موکل پر نہیں، یہ فوجداری مقدمہ نہیں اس لئے اگر حسن، حسین ملزم بھی ہیں تو انکے خلاف ثبوت نہیں۔
ارسلان افتخار کیس کا حوالہ دیتے ہوئے سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ارسلان افتخار کیس میں عدالت کہہ چکی ہے ٹرائل متعلقہ فورم پر ہو سکتا ہے ، معاملہ تحقیقات کے لئے اداروں کو بھجوایا جاسکتا ہے، عدالت نے کبھی فوجداری مقدمات کی تحقیقات نہیں کی، آرٹیکل 10 ہر شخص کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے۔
جسٹس کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ راجہ صاحب آپ دلائل مکمل کرنے کے بعد سوالات کے جواب دیں، جس پر عدالت میں میاں شریف اور الثانی خاندان کے تعلق کے بارے میں پوچھا گیا، نیلسن اور نیسکول کے شیئرز اور مالی فائدے کے بارے میں پوچھا گیا، ٹرسٹ ڈیڈ پر بھی سوال اٹھائے گئے اس سمیت تمام سوالات کا جواب دونگا۔
وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ حقائق جاننے کے بعد عدالت معاملہ کسی مناسب فورم پر بھیج سکتی ہے، این آئی سی ایل اور حج کرپشن کیس میں عدالت نے دوسرے فورم سے تحقیقات کرائیں، عدالت کے پاس کمیشن بنانے کا بھی اختیار ہے، کیا عدالت 184/3 کے تحت کسی دوسری عدالت کے اختیار لے سکتی ہے۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کی ہے، ملکیت پر کوئی تنازع نہیں، کیا یہ وضاحت مانگی جا سکتی ہے یہ فلیٹس بچوں نے کیسے خریدے۔
جواب میں سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ یہ فلیٹس حسین نواز نے اپنے دادا کے کاروبار سے خریدے، درخواست گزار کا موقف ہے کہ فلیٹس وزیراعظم نے غلط طریقے سے خریدے، ریکارڈ پر ایسی کسی بھی بدعنوانی کا ریکارڈ سامنے نہیں آیا، یہ نہیں کہا جاسکتا عہدے کے استعمال سے لندن فلیٹس خریدے گئے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ یہ بھی کہا گیا رحمان ملک نے اپنی رپورٹ تیار نہیں کی تھی۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ذاتی تشہیر کے لئے رحمان ملک نے رپورٹ صدر کو بھجوائی اور جاری کی، رحمان ملک نے معطلی کے دوران لندن فلیٹس کے بارے میں رپورٹ تیار کی، رحمان ملک کو سرکاری سطح پر کوئی تحقیقات نہیں سونپی گئی۔
جسٹس اعجاز االاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رحمان ملک نے رپورٹ میں جن اکاؤنٹس کا ذکر کیا اس سے انکار کرسکتے ہیں۔
حسن اور حسین نواز کے وکیل نے رحمان ملک کی رپورٹ کو یکسر مسترد کر دیا، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ رپورٹ مسترد کرکے ملزمان کو بری کر چکی ہے، قانون کی نظر میں رحمان ملک کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلوں میں انٹرویو میں کہی گئی باتوں کا معاملہ ہوچکا ہے، سپریم کورٹ قرار دے چکی عوامی مفاد کے مقدمے میں کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جاسکتا، قانون کے مطابق بنائے گئے اداروں کو ان کا کام کرنے دیا جائے۔
سلمان اکرم نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل اور دیگر مقدمات میں دیگر اداروں سے کام لیا، سپریم کورٹ خود انکوائری نہیں کر سکتی صرف کمیشن بنائے گئے، سوال یہ ہے کیا کمیشن فوجداری مقدمے کے طرح ٹرائل کر سکتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا پہلے اپنے دلائل مکمل کریں ، دلائل کے اختتام پر ایسے قانونی سوالوں کے جواب دیں۔
وکیل حسن نواز کا کہنا تھا کہ شیزی نقوی کا لندن میں بیان حلفی رحمان ملک کی رپورٹ کی بنیاد پر تھا، یہ ثابت ہے 1999 میں فلیٹس وزیر اعظم تو کیا شریف خاندان کے بھی نہیں تھے، 93 سے 96 کے دوران الثانی خاندان نے یہ فلیٹس خریدے، جنوری 2006 میں الثانی خاندان نے فلیٹ حسین نواز کے حوالے کئے، جولائی 2006 میں یہ بیریئر سرٹیفکیٹ کرکے شیئرز منروا کمپنی کو ملے۔
جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کب پیش کرینگے راجہ صاحب؟ آپ ادھر ادھر کی چھلانگیں لگا رہے ہیں، دستاویز ہیں تو دکھائیں، الزام یہ ہے کہ مریم نے منروا سے رابطہ کیا۔
سلمان اکرم راجہ کا سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ منروا سروسز فلیٹس کی دیکھ بھال کرتی ہے، حقائق کے ساتھ جوا نہیں کھیلوں گا۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں معاملہ ایمانداری کا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ قطری خاندان سے سیٹلمنٹ کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ ملے، جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے سوال کیا کہ کیا سیٹلمنٹ حماد بن جاسم سے ہوئی یا الثانی خاندان سے؟
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ سیٹلمنٹ محمد بن جاسم سے ہوئی، محمد بن جاسم کے بڑے بھائی 1991 اور والد جاسم 1999 میں وفات پا گئے تھے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ محمد بن جاسم سے کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس حسین نواز کو کیسے ملے؟ دوسرے قطری خط میں لکھا ہے یہ سرٹیفکیٹ ڈیلیورز کیے گئے، قطری خط میں نہیں لکھا سرٹیفکیٹ حسین نواز کو دئیے، اب تو ہمیں خطوط زبانی یاد ہو گئے ہیں۔
وکیل نے بتایا کہ سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے نمائندے نے حسین نواز کے نمائندے کے حوالے کیے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ درست ہے یا غلط ریکارڈ میں سرٹیفکیٹ حوالگی کا بتایا گیا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ دبئی فیکٹری کے 12 ملین درہم الاثانی خاندان کے پاس پڑے رہے؟ 26 سال تک یہ پیسہ بڑھتا رہا؟ کیا اس سرمایہ کاری کا دستاویزی ثبوت موجود ہے۔
وقفے کے بعد سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوگئی، وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل جاری ہے، سلمان اکرم راجہ کا اپنے دلائل میں کہنا ہے کہ منروا کی خدمات جنوری دو ہزار چھ کے بعد حاصل کی گئیں، جولائی دو ہزار چھ میں شیئرز منسوخ کر کے منروا کے نام پر جاری ہوئے، دو ہزار چودہ میں شیئرز ٹرسٹی سروسز کو منتقل ہو گئے، شیئرز کی منتقلی حسین نواز کی ہدایت پر کی گئی، سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ہی مالکان کا پتہ ہوتا ہے۔،
جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ منروا سے پہلے کون سروسز فراہم کرتا تھا، جس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ رحمان ملک رپورٹ کے مطابق کوئی دوسری کمپنی یہ سروسز فراہم کرتی تھی۔
جسٹس گلزار نے کہا کہ اگر شیئرز سرٹیفکیٹ گم ہو جائیں تو مالک کس سے رابطہ کرے گا؟ رابطہ کرنے پرشیئر ہولڈر ہونے کا ثبوت بھی دینا ہو گا، کمپنیوں اور شیئرز کا ریکارڈ کہیں نہ کہیں تو موجود ہوتا ہی ہوگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ لگتا ہے معاملہ ریکارڈ پر نہیں، یادداشت پر چلتا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ منروا کمپنی کا خط بھی یادداشت پر مبنی ہے، آخر منروا سے متعلق ریکارڈ دینے میں کیا مسئلہ ہے؟
سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ دو ہزار چودہ میں منروا کی سروسز ختم کر دی گئی تھیں، اب یہ منروا کی صوابدید ہے کہ وہ کیا ریکارڈ دیتی ہے اور کیا نہیں، کوشش کروں گا زیادہ سے زیادہ ریکارڈ دے سکوں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ نہ تو کرمینل ٹرائل ہے نہ ہی کرمینل ٹرائل کر سکتے ہیں، سوال جواب ہوا تو پیاز کی ایک پرت کے بعد ایک سامنے آتی جائے گی، سوال یہ ہے ایسی صورت میں ہم سوالات کا سلسلہ کہاں جا کر روکیں گے، اگر سوالات کا سلسلہ جاری رہا تو یہ معاملہ کیسے نمٹے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ ارینا کمپنی کو منروا سے رابطے کی ہدایت کس نے کی؟ جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ حسین نواز نے ارینا کمپنی کو رابطے کی ہدایت کی ہو گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ منروا کے جواب میں کہیں نہیں لکھا مریم نواز کے دستخط جعلی ہیں، تو سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ منروا کمپنی نے 2005کے دستاویز سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ لندن فلیٹس کو بینک کے پاس گروی رکھوایا گیا تھا، گروی رکھوانے کے دستاویزات پر کس کے دستخط تھے؟ 2008میں فلیٹس کو گروی رکھوایا گیا تھا۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ حسین نواز نے انٹرویو میں کہا تھا مورگیج کی رقم آج تک ادا کر رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے وکیل سلمان اکرم سے پوچھا کہ مصدقہ دستاویزات آخر کون فراہم کرے گا؟ صورتحال عجیب ہے، اصل معلومات تک رسائی کیسے ممکن ہو گی؟ درخواست گزار نے دستاویزات دینے سے معذوری ظاہر کر دی ہے، آپ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ ہم اس معاملے کو کیسے سمیٹیں؟ سلمان اکرم نے کہا کہ ٹرائل ہو رہا ہے نہ تحقیقات کہ تفتیشی افسر دستاویزات کی تصدیق کرا لائے، جو ریکارڈ دستیاب ہے عدالت کو فراہم کر دیا ہے، مزید بھی جو کچھ ممکن ہوا فراہم کریں گے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تمام دستاویزات حسین نواز ہی فراہم کر سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قطری سرمایہ کاری 26 سال الثانی خاندان کے پاس رہی، میاں شریف کی ہدایت پر الثانی خاندان بوقت ضرورت رقم بھی دیتاتھا، قطری سرمایہ کاری اور معاملات طے ہونے کا کوئی تو ریکارڈ ہوگا۔
سلمان اکرم نے اپنے دلائل میں کہا کہ میاں شریف کی زندگی میں حسن نواز کو بزنس کے لیے قطری فنڈ دئیے گئے، جدہ مل کے لیے بھی فنڈز کا بندوبست میاں شریف نے کیا، جدہ مل 63 ملین ریال میں 2005 میں فروخت ہوئی، اتفاقی طور پر جدہ مل خریدنے والی کمپنی کا نام اتفاق تھا۔
وکیل نے مزید کہا کہ شریف فیملی کے ساتھ صرف ایک شاہی خاندان کے تعلقات نہیں تھے، بعض وجوہات کی بنا پر دیگر شاہی خاندانوں کے نام نہیں دے سکتا، شاہی خاندان شریف فیملی کو تحائف بھی دیتے رہتے ہیں۔
جسٹس کھوسہ نے سوال کیا کہ کیا یہ تحائف یکطرفہ ہیں یا شریف فیملی بھی تحائف دیتی ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا اس حوالے سے زیادہ تفصیلات کا علم نہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شریف خاندان کا ایک بچہ لندن میں تھا، بچے کی رہائش کے لیے 4 فلیٹس کیوں لیے گئے۔
وکیل نے بتایا کہ ممکن ہے شریف خاندان کو کوئی اوربچہ بھی لندن میں ہو، اس حوالے سے تفصیلات لے کر عدالت کو بتاؤں گا، شریف خاندان 1993 سے لندن میں مقیم ہے، صرف رہائش رکھنا ملکیت ظاہر نہیں کرتا، حسن نواز کو عزیزیہ مل کی فروخت سے بھی رقم ملی۔
سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس عظمت سعید شیخ دل کی تکلیف کے باعث اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں کے پینل نے ان کا مکمل طبی معائنہ کیا، اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس عظمت سعید شیخ کی وین میں بلڈ کلاٹ تھا جو ختم کردیا گیا اور ان کی انجیو گرافی مکمل کرلی گئی تھی۔