اسلام آباد : پاناما لیکس پر ایف بی آر نے خود اپنے نوٹسز کو رسمی کارروائی قرار دے دیا۔ پاناما لیکس پر 450 افراد کو بھیجے گئے خطوط کو نوٹس یا تحقیقات کا آغاز نہ سمجھا جائے۔
ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے پاناما لیکس پر کڑی تنقید کے بعد ایف بی آر کاغذی کارروائی پرمجبو ہوگیا۔ لیکن پاناما لیکس پر کیا ٹیکس حکام شریف خاندان سمیت کسی بھی فرد کیخلاف کچھ کرسکیں گے۔
ایف بی آر نے پاناما لیکس پر 450 افراد کو خطوط جاری کیے ہیں جس پر ایف بی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان خطوط کو نوٹس یا تحقیقات کا آغاز نہ سمجھا جائے، پاناما لیکس پر مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز اور حمزہ شہباز سمیت ساڑھے تین سو افراد کو ایف آر کے نوٹس محض ایک دکھاوا نظر آرہے ہیں۔
ایف بی آر حکام خود اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کے پاس قانونی طور پر کچھ کرنے کا اختیار ہی نہیں، جن افراد کو جو نوٹسز بھیجے گئے ہیں ان میں ان سے پوچھا گیا ہے کہ ان کا ذریعہ آمدن کیا ہے۔ ان کی زیر کفالت کتنے لوگ ہیں اور ان کا ذریعہ معاش کیا ہے۔
پاکستان میں اس وقت چھ سالہ پرانا قانون نافذ ہے جس کے تحت ایف بی آر کسی بھی شہری کے غیرملکی کاروبار پر سوال جواب سے زیادہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
ایف بی آر کسی بھی آف شور کمپنی سے کوئی معلومات بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ متحدہ اپوزیشن اور حکومت نے اپنے اپنے قانونی بل پارلیمنٹ میں بھیج دیئے ہیں۔
مزید پڑھیں : پاناما لیکس پر حسن، حسین اور مریم نواز سمیت 450 افراد کو نوٹسز جاری
ن لیگ نے اپنا بل قومی اسمبلی میں جمع کرایا ہے۔ جہاں حکمراں جماعت کی اکثریت ہے۔ زاہد حامد سینیٹ میں اکثریت اپوزیشن کی ہے۔ متحدہ اپوزیشن کا بل سینیٹ میں پیش کیا جا رہا ہے۔
پاناما لیکس پر نیا قانون کس کا چلے گا۔ سینیٹ سے منظور کردہ متحدہ اپوزیشن کا۔ یا قومی اسمبلی سے پاس ہوا ن لیگ کا۔۔ حالات اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ ایک اور گھمسان کی جنگ کا طبل بجنے والا ہے۔