بدھ, مئی 14, 2025
اشتہار

ہمارا کیا ہو گا؟

اشتہار

حیرت انگیز

تحریر: شریکی سنگھ سندھو

ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے، اور تربیت کی بھاری ذمہ داری ماؤں پر عائد ہوتی ہے۔ ہماری یونیورسٹی میں بیرون ملک سے پی ایچ ڈی پروفیسر صاحبہ تھیں جن کی اکلوتی بیٹی اکثر اسکول کے بعد ان کے پاس آ جایا کرتی تھی۔ موصوفہ گلوبلائزیشن اور کلائمیٹ چینج کے مضامین پڑھاتی تھیں لیکن اپنی بیٹی کو سرکاری A4 سائز کاغذوں کا ایک دستہ پکڑا دیا کرتی کہ چلو بیٹا آپ ڈرائنگ کر لو۔ اور وہ بچی کاغذ پر کچھ دائرے بنا کر اور لکیریں لگا کر اگلا صفحہ اٹھا لیتی۔ اس پر فخر سے کہا جاتا تھا کہ بچوں کی پرورش کا لازمی پہلو ہے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبایا نہ جائے۔

اپنے اردگرد دیکھیں تو اس قسم کے نظریات سے روزانہ کی بنیاد پر واسطہ پڑتا ہے کہ بچوں کو ڈانٹنا نہیں چاہیے کہ شخصیت سازی کا عمل متاثر ہو گا۔ ان کو ٹوکنا بھی نہیں ہے کہ ان کی سوچنے کی قوت سلب ہو جائے گی۔ ان پر دین کا اطلاق بھی انتہائی غیر محسوس اور ماڈرن طریقے سے کرنا ہے ورنہ مذہب سے متنفر ہو جائیں گے۔ ان کو ان کی مرضی کے مضمون چننے کی آزادی دیں۔ان کو پڑھاتے ہوئے آسان الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے، ورنہ ذہن معانی و اسلوب میں الجھ جائے گا ۔ ان کی خواہشات کو پورا کرتے رہنا چاہیے تاکہ احساس کمتری پیدا نہ ہو۔ گویا بچوں کو پالتے پالتے ان کی رضا کے غلام بن جاؤ۔

اب ذرا اپنے بچپن کی طبیعت کا دورِ‌ حاضر کے بچوں کی تربیت سے موازنہ کریں۔ جی مجھے اندازہ ہے کہ 1990 کا 2025 سے کیا مقابلہ لیکن کچھ عادات و اطوار، تہذیبی روایات اور اقدار کا زندہ رہنا ہی معاشرے کا حسن ہے۔ جب آٹھ بجے کا ڈرامہ سب مل کر ٹی وی پر دیکھتے تھے۔ کوئی مہمان آتا تھا تو سارے اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے لیکن آج کمروں سے نکلنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ بلاشبہ یہ دور انفرادیت، خودمختاری اور آزادی کا دور ہے، لیکن یہ انفرادیت اب خود غرضی میں بدل رہی ہے۔ سونے جاگنے کے اوقات پر اپنی مرضی، کس رشتے دار سے نہیں ملنا یہ اپنا فیصلہ، کس شادی میں شرکت کرنی ہے یہ بھی موڈ پر منحصر ہے۔ اپنی مرضی کا کھانا، اور بس اپنی خواہشات کی فکر۔۔۔ نہ وہ جذبِ باہم رہا نہ وہ محفلِ انجم رہی۔

ایک ہی گاڑی میں میلوں کا سفر طے کر لیا ۔ خاموشی سے، کانوں میں ٹوٹیاں ڈالی ہوئی ہیں۔ کوئی پتہ نہیں کہ ماں باپ کن مسائل پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ایک ہی گاڑی میں اگلی سیٹ پر بیٹھے ماں باپ کسی الگ دنیا میں ہیں اور پچھلی نشستوں پر براجمان اولاد کی اپنی ہی کائنات ہے۔ بچوں کو ماں باپ کے معاملات میں دلچسپی لینا سکھائیں۔ بچوں کو خدارا باتیں کرنا سکھائیں، ان کو تعریف کرنا، تعمیری تنقید کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا سکھائیں۔ ان کو الفاظ استعمال کرنے کا پابند بنائیں۔ الفاظ ہتھیار بھی ہیں اور مسیحا ہیں، لیکن افسوس کہ ہمارے بچوں کے پاس الفاظ ہی نہیں۔ کون ٹائپ کرنے کا تردد کرے۔ آج کل تو سوشل میڈیا کی پوسٹ پر بھی ہنستا، روتا یا حیران ہوتا ہوا ایموجی چسپاں کر دیا جاتا ہے۔

کوئی کچھ بھی سمجھے، راقم نزدیک اتنی کم گوئی بے حسی ہے۔ باتیں کرنا، بے معنی اور لگا تار باتیں، ماں باپ کے ساتھ، خالہ اور پھپھو کے ساتھ، بہن اور بھائی کے ساتھ، ہمیشہ بے وقوفی نہیں ہوتی۔ کبھی زیادہ بولنا محبتوں کا تبادلہ اور تقاضا بھی ہوتا۔ آپ کی آواز آپ کے ہونے کا احساس ہے۔ خاموشی بے شک بہترین حکمت عملی ہے، لیکن دشمن کے خلاف۔۔۔ اپنوں پر اس کو نہ آزمائیں۔ کبھی اپنے ساتھ رہنے والے دادا دادی اور نانا نانی سے پوچھیں کہ وہ آپ کو سننے کو کتنا ترستے ہیں۔

یاد ہے کہ ہم ایک جوتے اور چپل میں سارا سال گزار لیتے تھے وہی عید پر پہن لیا، وہی کسی شادی بیاہ پر اور وہی اسکول میں۔۔ لیکن آج ہمارے بچوں کی الماریاں کپڑوں اور جوتوں سے بھری ہوئی ہیں، درازوں سے آرائش کی اشیا امنڈ رہی ہیں۔ بے تحاشا اور لاتعداد کپڑے، ریشم و اطلس و کمخاب، جینز اور لینن کے کپڑے۔۔ لیکن ناقدری۔ اسٹیشنری، کاپیاں، پنسلیں درجنوں بھری پڑی ہیں۔ لیکن کچھ لکھنے کی بجائے کوشش ہے کہ اسکرین شاٹ لیا جائے۔ خدارا بچوں کو کم میں راضی رہنا اور تھوڑے سے خوش ہونا سکھائیں۔ آپ کتنے باذوق ہیں یہ آپ کا لباس نہیں بلکہ آپ کی گفتگو کو بتانا چاہیے۔

علم نفسیات کی ایک تھیوری ہے delay in gratification یوں سمجھ لیں کہ تسکین میں تاخیر۔ بچوں کی تربیت کا یہ گُر ہمیں بچوں کے ماہرین نفسیات نے بتایا کہ بچوں کو انکار سننے اور انتظار سہنے کا عادی بنائیں، اگر وہ آپ سے کچھ مانگ رہے ہیں تو قوت خرید ہونے کے باوجود ان کو صبر کا سبق دیں۔

بچوں کو لاڈ سے نہیں پیار سے پالیں۔ ان کو آرام نہیں احترام کا درس دیں، اور آسائش نہیں نظم و ضبط کا عادی بنائیں۔ ورنہ جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا۔

راقم بذات خود تنبیہی انداز تحریر کا قائل نہیں لیکن یہ فکر دل کو کھا رہی ہے کہ ہمارے والدین تو پھر بھی اچھے رہ گئے، ہمارا مستقبل جس نسل سے وابستہ ہے ہمارا کیا ہو گا؟

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں