تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

اسمارٹ فونز اور ٹیکنالوجی کے دور میں‌ والدین کی ذمہ داری

تحریر: ہادیہ رحمٰن

ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جب دنیا بس ایک "کلک” کی دوری پر ہے۔ موبائل فونز اور دوسری اسمارٹ ڈیوائسز کے انٹرنیٹ سے منسلک ہوتے ہی جیسے سیکنڈوں پورا جہان آپ کے سامنے آجاتا ہے۔ تفریح اور عام معلومات کے ساتھ عام یہ ٹیکنالوجی تعلیم و تربیت میں بھی مددگار ہے، لیکن یہ بات جہاں سننے میں بھلی معلوم ہوتی ہے، وہیں والدین کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے، کیوں‌ کہ بچّے چھوٹے ہوں یا نوعمر آج کل سبھی موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کا استعمال جانتے ہیں۔

اب جب کہ کرونا کی وبا پھیلی تو اسکول سے لے کر جامعات کی سطح تک آن لائن پڑھائی کا رجحان سامنے آیا ہے اور نوجوان نسل کو موبائل یا لیپ ٹاپ استعمال کرنے کا جیسے جواز مل گیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب چند فی صد ہی لوگ ہوں گے جو اسمارٹ موبائل فونز استعمال نہ کرتے ہوں۔ یوں اس دور میں‌ والدین کے لیے اپنی اولاد کی تربیت کرنا ایک بڑا چیلنج ثابت ہورہا ہے اور بچوں‌ کی نگرانی اور اچھے برے میں‌ تمیز سکھاتے ہوئے برائیوں سے دور رکھنا ناممکن نہیں‌ تو مشکل ضرور ہوگیا ہے۔

بچوں پر پابندیاں اور روک ٹوک بھی مخصوص عمر تک ہی ممکن ہے اور دھڑکا لگا رہتا ہے کہ سختی اور پابندیاں‌ انھیں‌ خود سَر اور باغی نہ بنا دیں۔

والدین کو کیا کرنا چاہیے؟ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ والدین اپنے بچوں سے دوستی کا تعلق استوار کریں۔ پیار و محبت سے انھیں‌ معاشرتی برائیوں اور فتنوں کے بارے میں آگاہ کریں۔ ہر قدم پر ان کی راہ نمائی کریں اور نرمی کے ساتھ موقع بہ موقع اچھے برے میں‌ تمیز کرنا سکھائیں۔ بچپن سے ہی انھیں فضائل و رزائلِ اخلاق کا شعور دیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ چھوٹی عمر میں والدین بچوں کو بے جا لاڈ پیار سے بگاڑ دیتے ہیں اور بڑے ہونے پر سختی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ بچپن ہی سے انھیں اچھائی کی طرف راغب کریں اور ان کی تربیت پر توجہ دیں۔

یہ عام مشاہدہ ہے کہ بعض والدین اپنی جان چھڑانے کے لیے پورا پورا دن بچوں کو موبائل فون استعمال کرنے یا ٹی وی دیکھنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ ادھر بچے نے رونا شروع کیا اور ادھر موبائل فون ان کے ہاتھ میں تھما دیا گیا۔ یاد رکھیں شاید اس وقت تو آپ اپنی جان چھڑا لیں‌ گے اور پُرسکون طریقے سے اپنے کام میں‌ مگن ہو جائیں گے، مگر اس طرح آپ کا بچہ ضدی اور موبائل فون کے استعمال کا عادی بن سکتا ہے۔

موبائل یقینا آج کل کے دور کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے، اور اس کا استعمال فائدہ مند ہے یا نقصان دہ، یہ استعمال کرنے والے پر منحصر ہے۔ بچّوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپناتے ہوئے ان کی دل چسپیوں، مشاغل، گھر سے باہر ان کے ماحول اور دوستوں پر کڑی نظر رکھیں۔ اچھے دوستوں‌ کا ساتھ بھی ایک نعمت ہے اور بری صحبت میں آپ کا بچہ راہِ راست سے بھٹک سکتا ہے۔ ہم فتنوں کے اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں قدم قدم پر برائیاں آپ کا راستہ روکے کھڑی ہیں۔ایسے میں والدین سے بہتر دوست کون ہو سکتا ہے؟

بچے اگر غلطی کریں تو ان کی سرزنش اس طرح کی جائے کہ وہ دوبارہ آپ سے کوئی بھی بات کرتے ہوئے نہ ہچکچائیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جن گھروں میں بے جا مار پیٹ اور مسلسل روک ٹوک کی جائے، وہاں‌ بچّے بڑے ہو کر گھر سے باغی ہو جاتے ہیں اور بے راہ روی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بچّوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں، لیکن ضرورت پڑنے پر سختی بھی ضروری ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین بچوں کو وقت نہیں دیتے اور ضروریاتِ زندگی مہیا کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں‌ نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بچوں کو ایک خاص عمر تک آسائشوں سے زیادہ آپ کی توجہ اور وقت کی ضرورت ہے۔ اگر آج آپ اپنے بچوں کو وقت نہیں دیں گے تو یہی بچے بڑے ہو کر آپ سے دور ہوسکتے ہیں۔ ان کے ساتھ کھیلیں، ان کے مشاغل جانیں‌، بات چیت کریں اور ان کے معمولات میں‌ دل چسپی لیں۔ مثلا اسکول یا کالج میں کیسا وقت گزرا، انھوں نے کوئی نیا دوست بنایا، کسی سے کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا۔ اسی طرح‌ ایک خاص عمر میں‌ گھر کے چھوٹے موٹے معاملات میں ان کی رائے بھی لازمی لیں۔ اس سے انھیں اپنی اہمیت کا احساس ہوگا اور وہ بھی اپنی زندگی میں‌ مشاورت اور اپنے معاملات میں آپ سے رائے لینے کے عادی بنیں‌ گے۔

اولاد کی تربیت ایک بڑی ذمہ داری ہی نہیں‌ یقیناً مشکل اور صبر آزما کام بھی ہے۔ شاید اسی لیے انسان کو اشرفُ المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے اور یہی چیز اسے دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ اپنے بچوں کو انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز ضرور استعمال کرنے دیں، لیکن ان کی طرف سے غافل نہ رہیں۔ پیار اور توجہ دے کر آپ اپنی اولاد کو نیک، صالح، اپنا فرماں بردار، اور معاشرے کے لیے بھی مفید اور کارآمد بنا سکتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -