پیرس اولمپکس میں سات رکنی قومی دستے کے 6 ایتھلیٹس بغیر میڈیل کے باہر ہوچکے ہیں اور پاکستان کی واحد امید ارشد ندیم آج میدان میں اتریں گے۔
32 سال بعد اولمپک میڈل کی دید کے لیے پاکستان کی واحد امید جیولین تھرو ہیرو ارشد ندیم ہیں جو آج میڈل حاصل کرنے اور سبز ہلالی پرچم سربلند کرنے کے لیے میدان میں اتریں گے۔
جیولین تھرو میں میڈلز کے لیے 32 ایتھلیٹس زور لگائیں گے اور 84 میٹر کی تھرو کرائے گی ایتھلیٹس کو پہلا مرحلہ پار۔ کوالیفائنگ راؤنڈ میں ارشد ندیم گروپ بی میں شامل ہیں، جب کہ بھارت کے نیرج چوپڑا بھی ایکشن میں ہوں گے۔
کم سے کم 12 ایتھلیٹس فائنل میں جائیں گے۔ چوراسی میٹر کی 12 تجروٹ نہ ہوئیں تو فیصلہ رینکنگ پر ہوگا اور 12 سے زائد کھلاڑیوں نے بھی تھرو مکمل کر لی تو فائنل میں ان سب کی جگہ پکی ہوگی۔
میڈل کیلیے جیولین تھرو کا فائنل 8 اگست کو ہوگا۔ سب سے دور نیزا پھینکنے والا گولڈ میڈل کا حقدار ٹھہرے گا۔
گزشتہ اولمپکس میں ارشد ندیم چند میٹر کے فاصلے سے میڈل نہ جیت سکے تھے جب کہ نیراج چوپڑا بازی لے گئے تھے۔
پاکستان کی امید ارشد ندیم کے کیریئر پر نظر ڈالیں تو انہوں نے جولین تھرور 2015 میں اپنا جولین تھرو کیریئر شروع کیا اور صرف ایک سال بعد پاکستان کو 2016 میں جونیئر ایتھلیٹکس میں تمغہ دلایا۔ 2018 میں ایشین گیمز میں ارشد ندیم نے کانسی کا تمغہ جیتا۔
سال 2020 ارشد ندیم کے لیے خوشیوں کی نوید لے آیا اور وہ ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان کے لیے پہلا گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ایتھلیٹ بنے۔
انہوں نے اسلامک سولیڈیرٹی اور امام رضا کپ میں بھی سونے کا تمغہ حاصل کیا، لیکن ان کی اصل پہچان ٹوکیو اولمپکس سے اس وقت بنی جب ارشد نے جیولن فائنل میں میڈلسٹ کو ٹف ٹائم دیا اور صرف چند میٹر کے فرق سے پانچویں پوزیشن حاصل کی۔
برمنگھم میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں 90.8 میٹر کی ریکارڈ تھرو کر کے پاکستان کو ایتھلیٹکس میں پہلی بار طلائی تمغہ دلایا۔
ارشد ندیم نے گزشتہ سال ورلڈ ایتھلیٹکس میں چاندی کا میڈل حاصل کیا اور اب قوم کو پیرس میں بھی ان سے بڑی امیدیں ہیں اور اولمپکس میں میڈل کا 32 سالہ قحط ٹوٹنے کی منتظر ہے۔