تقسیمِ ہند کے بعد پارسی برادری بھی سرحدوں کی لکیر کے اِدھر اُدھر بٹ کر رہ گئی تھی اور آج پاکستان اور بھارت میں پارسیوں کی بہت کم تعداد رہ گئی ہے۔
کراچی شہر اور عوام کے لیے پارسیوں کے سماجی کام اور کئی شعبوں میں خدمات آج بھی قابلِ ذکر اور لائقِ تحسین ہیں۔ اسی شہر میں زرتشتی عقیدہ کے ان پیروکاروں کی عبادت گاہ دارمیر 1848ء میں تعمیر کی گئی تھی جس کا فن تعمیر اس کے تابناک ماضی کی یاد دلاتا ہے۔ بھارت کی بات کی جائے تو وہاں بھی یہ برادری چند ہزار تک سمٹ گئی ہے۔
پارسیوں کا زرتشتی عقیدہ ہے، جسے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک مانا جاتا ہے اور اس کی جڑیں قدیم فارس سے ملتی ہیں۔ اسی برادری کے لوگوں کے لکھنؤ میں بسنے سے متعلق یہ تحریر قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔
شمالی ہندوستان میں سفر کرنے والے اوّلین پارسی اٹھارہ سو تیس اور چالیس کی دہائی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی رجمنٹ کے کیمپ کے پیروکار تھے۔ وہ یورپ سے امپورٹ کیے گئے اشیاء کی تجارت کرتے تھے۔ ان کے خریدار زیادہ تر یورپی فوجی اور شہری ہوتے تھے، اور شاید ایک دو نواب بھی ان کے خریداروں میں شامل تھے۔
1850 کی دہائی تک پارسیوں نے دہلی، الہ آباد اور کانپور جیسے شہروں میں دکانیں کھول لیں تھیں۔ یورپی اشیاء کے علاوہ، وہ شراب اور بیئر کے اپنے ذخیرے (اسٹاک) کے لیے بھی معروف تھے۔
اگرچہ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے بعد دریائے گنگا کے میدانی علاقوں میں پارسی قوم کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا، لیکن شمالی ہندوستان میں پارسیوں کی آبادی انیسویں صدی کے اواخر تک کم تھی اور اکثر بکھری ہوئی تھی۔ لکھنؤ کے ایک پارسی باشندے کو ‘فائر ٹیمپل’ (آتش کدہ) کی زیارت کے لیے کسی بھی سمت میں ایک ہزار کلو میٹر تک سفر کرنا پڑتا تھا۔ وہ یا تو مغرب میں لاہور جا سکتا تھا یا مشرق میں کلکتہ۔ اگر وہ ممبئی کے لیے جنوب کی جانب سفر کرتا تو وسطی ہندوستان میں مہو (مدھہ پردیش کا ایک شہر، جو اب امبیڈکر نگر کہلاتا ہے) میں ’آتش کدے‘ کی زیارت کر سکتا تھا۔
بہرحال، لکھنؤ جب اودھ کے نوابوں کا دارالحکومت نہ رہا اور ایک نوآبادیاتی کالونی میں تبدیل ہو گیا، تو کاروبار میں اپنا مقدر آزمانے کے خیال سے پارسیوں نے یہاں کا رخ کرنا شروع کیا۔ 1870 کی دہائی کے اوائل تک، لکھنؤ میں پارسیوں کی تعداد 100 کے قریب تھی، جن میں چند خاندان بھی شامل تھے۔ ‘دی لکھنؤ پارسی انجمن’ نے ایک ‘آرام گاہ’ (پارسیوں کا قبرستان) کی بنیاد رکھی۔ 1872 میں ‘ہرمزد باغ’ (اہورا مزدا) کے نام سے ایک کمیونٹی ہال، جو اب تک ان کی یادگار کے طور پر قائم ہے، فرم جی شاپور جی کوچ بلڈر کے فنڈز سے ‘آرام گاہ‘ کے ٹھیک سامنے تعمیر کیا گیا تھا۔