تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ایک زہریلی پھلی جو سیاہ فام پرسی جولین کی وجہِ شہرت بنی

جہاں بہت سے لوگ میز پر رکھے ہوئے کسی پھلی کے بیج کو محض بیچ اور ایک دانہ سمجھتے تھے، وہاں پرسی جولین (Percy Lavon Julian) کو وہ میز اپنے لیے ایک تجربہ گاہ نظر آتی تھی۔ پھلی کا وہ دانہ بھی اس کے لیے بہت اہم ہوتا تھا۔

جولین آگے چل کر ایک کیمیا دان بنے۔ وہ نباتات کے ماہر تھے۔ پودوں کے قدرتی اجزا اور ان کی خصوصیات پر تحقیق اور تجربات کرتے ہوئے انھوں نے انسانوں کے بعض امراض کا علاج دریافت کیا۔

انھوں نے کالا بار پھلی سے معمر افراد میں اندھے پن کی ایک بڑی وجہ بننے والی بیماری، موتیے کا علاج دریافت کیا۔ سویا بین پر ان کی تحقیق اور تجربات سے جوڑوں کے درد کی بیماری، گٹھیا کے لیے ٹیکوں سے لے کر دوسری عالمی جنگ میں طیارہ بردار جہازوں پر لگنے والی آگ کو روکنے کے لیے استعمال ہونے والی بہت سی چیزیں انہی کی دریافت ہیں۔

کالا بار ایک زہریلی پھلی ہے جس کے بارے میں اس کیمیا دان نے کہا تھا، “جب میں نے پہلی بار اسے دیکھا تو جامنی رنگ کی یہ پھلی خوب صورت دکھائی دی، مگر یہ نہ صرف دیکھنے میں خوبصورت ہے بلکہ اس کے اندر جو کچھ ہے، وہ بھی کارآمد ہے۔”

جولین کا شمار بیسویں صدی کے عظیم امریکی سائنس دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ افریقی نژاد امریکی تھے جنھیں‌ اس زمانے میں‌ نسل پرستی اور سیاہ فاموں سے ناروا سلوک اور ہر میدان میں تفریق و امتیاز کا سامنا بھی رہا، لیکن انھوں‌ نے اپنی تمام توانائی انسانوں کو فائدہ پہنچانے اور دنیا کی بھلائی پر صرف کی اور اپنے کام میں‌ مگن رہے۔

1975ء میں جولین اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ جولین 1899ء میں منٹگمری، الاباما میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ امریکا میں‌ غلام بنا کر لائے گئے افریقیوں کی اولاد تھے۔ اس دور میں‌ سیاہ فاموں‌ کو سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں‌ تعلیم کے یکساں‌ اور معیاری مواقع میسر نہیں‌ تھے، جولین نے بھی نسلی بنیادوں پر قائم کردہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کی جہاں سیاہ فام طلبا آٹھویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکتے تھے۔

جولین کے والدین استاد تھے اور انھوں نے اپنے چھے بچّوں کے لیے گھر میں‌ ایک لائبریری بنا رکھی تھی جس نے جولین کو لکھنے پڑھنے اور آگے بڑھنے میں مدد دی۔ بعد میں‌ جولین نے انڈیانا کی ڈی پاؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

کالج کے زمانے میں‌ جولین نے ویٹر کے طور پر کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ طلبا کی ایک رہائشی عمارت کے آتش دانوں میں لکڑیاں جھونکنے کا کام بھی کیا جس کے بدلے انھیں کیمپس میں رہائش کے لیے ایک کمرہ ملا ہوا تھا۔ 1920ء میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جب انھوں نے ملازمت حاصل کرنا چاہی تو بعض نجی کمپنیوں نے انکار کردیا۔ جولین مایوس نہیں ہوئے اور کوشش جاری رکھی، بالآخر گلڈن کمپنی نے انھیں موقع دیا اور جولین نے بھی خود کو اہل ثابت کیا۔ سویا بین پر ان کی تحقیق نے لیٹکس رنگوں کی تیاری میں اس کمپنی کو بہت مدد دی۔

1935ء میں جولین نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی اور کالا بار پر تحقیق اور تجربات سے فائیسو سٹیگمین کی وہ مقدار حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہے جس سے موتیے کے مریضوں کے علاج میں‌ مدد ملی۔ ان کی کوششوں کے بعد ہی موتیے کے علاج کے لیے کافی مقدار میں فائیسو سٹیگمین بننا شروع ہوئی۔

امریکا اور دنیا بھر میں‌ اس سیاہ فام کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں‌ متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا اور انھیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

Comments

- Advertisement -