پشاور: ہائی کورٹ کے جج جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ والدین ایک کمرے میں 8 بچوں کو پال سکتے ہیں لیکن بڑے ہوکر وہی اولاد بوڑھے ماں باپ کو نہیں سنبھال سکتے، بیوی کا بھی حق ہے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا بھی لیکن والدین کا حق سب سے پہلے نمبر پر اور سب سے زیادہ ہے۔
پشاور ہائیکورٹ میں بوڑھے والدین کو بچوں کی طرف سے بے سہارا چھوڑے جانے کے ایک کیس میں عدالت نے برزگ والدین کے پانچ بیٹوں پر ہر مہینے 26 سے 28 تاریخ تک تین تین ہزار روپے والدین کو دینے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے متعلقہ ایس ایچ او کو تمام بیٹوں سے تین تین ہزار روپے لے کر ان کے والدین تک پہنچانے کی ہدایت کی، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ایس ایچ او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دیکھیں، ان کا جو بیٹا بیرون ملک مقیم ہے، ان کے گھر کا پتا کر کے ان کی بیوی کو اطلاع دیں، کہ اپنے شوہر کو آگاہ کرے کہ ہر مہینے تین ہزار روپے والدین کے لیے بھیجیں، اگر پیسے نہیں بھیجتے تو پھر ہم ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دیں گے۔
قبل ازیں، بوڑھے والدین کو بے سہارا چھوڑنے پر بیٹوں کے خلاف دائر کیس میں ایس ایچ او نے بیٹوں کو بغیر ہتھکڑیوں کے عدالت میں پیش کیا تو عدالت نے ایس ایچ او کی سرزنش کر دی، جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ان کی ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے، بغیر ہتھکڑی کیوں پیش کیا، ہتھکڑیوں میں ان کو لاتے تو ان کو کچھ احساس ہوتا۔
جسٹس روح الامین نے والدین کو بے سہارا چھوڑنے والے بیٹوں سے استفسار کیا کہ آپ کی شادیاں کس نے کرائیں، کیا خود شادی کی یا والدین نے شادی کا خرچہ برداشت کیا، اس پر عدالت میں موجود تینوں بھائیوں سے جواب دیا کہ والدین نے ان کی شادیاں کی ہیں، جسٹس روح الامین نے کہا کہ آپ کے والدین عدالت میں کھڑے ہیں اور شکایت کر رہے ہیں کہ آپ لوگوں نے اس عمر میں ان کو بے سہارا چھوڑا ہے، آپ لوگوں کو کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ آپ تینوں نے داڑھی رکھی ہے اور ٹوپیاں پہنی ہیں، ایہ اچھی بات ہے نیکی کے کام کرنا چاہیے لیکن جب تک آپ والدین کی خدمت نہیں کریں گے اللہ آپ کو نہیں بخشے گا۔
عدالت میں بے آسرا ماں نے اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان کے پانچ بیٹے ہیں تین عدالت میں موجود ہیں، ایک بیرون ملک ہے، لیکن ہم اکیلے رہ رہے ہیں، ایک بیٹا ہے اس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں، گھر کا 6 ہزار ماہانہ کرایہ ہے اور اس کے علاوہ 2 ہزار بجلی کا بل بھی ہے، لیکن ان کے بچوں نے انھیں چھوڑ دیا ہے اور اب وہ خود کوئی کام بھی نہیں کرسکتی، شوہر بیمار ہے کل بھی اسپتال لے کر گئی لیکن علاج کے پیسے نہ ہونے پر واپس گھر آ گئے۔
ماں نے بتایا کہ ایک کمرے میں نے 8 بچوں کو پالا تھا لیکن اب میرا کوئی آسرا نہیں ہے، بزرگ خاتون کی فریاد پر عدالت میں موجود زیادہ تر لوگ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے، اور آبدیدہ ہوگئے۔
جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ کتنی مشکل سے ان ماں پاب نے آپ کو بڑا کیا ہوگا آپ لوگ ان کا خیال نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا، بیوی کا بھی حق ہے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا بھی حق ہوتا ہے لیکن بزرگ والدین کی خدمت سب سے پہلے ہے، ابھی اس سے پہلے ایک کیس سن رہے تھے ہم، 4 بیٹوں نے والد پر جان قربان کر دی تھی، والدین کے قدموں تلے جنت کا کہا گیا ہے اور آپ لوگوں نے بزرگ والدین کو ایسے چھوڑ دیا ہے، ہم آپ کو ایک مہینے کے لیے ڈی آئی خان جیل بھیج دیں گے، رمضان کا مہینہ جیل میں بیوی بچوں سے دور گزاریں گے تو کچھ احساس ہوگا۔
عدالت میں موجود بزرگ والدین کے بڑے بیٹے نے والدین کو ساتھ لے جانے پر رضا مندی ظاہر کی تو عدالت نے ان کو والدین ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی، اور ہر مہینے تین تین ہزار روپے تمام بھائیوں سے والدین کو دینے کا حکم دے دیا۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے عدالت میں موجود ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مجاہد علی خان سے استفسار کیا کہ حکومت کا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے جس سے ایسے لوگوں کی امداد ہو سکے، اے اے جی نے عدالت کو بتایا کہ احساس پروگرام اور بیت المال سے ہو سکتی ہے ان کی مدد، اس پر جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ احساس پروگرام تو ہے لیکن لوگوں میں احساس نہیں ہے۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ اے اے جی صاحب والدین کے تحفظ کے لیے آپ لوگوں نے جو آرڈیننس بنایا تھا کیا وہ صرف دکھانے کے لیے تھا، صوبائی حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ ایسے والدین کی مدد کی جا سکے، عدالت نے اے اے جی مجاہد علی خان کو برزگ والدین کو صحت کارڈ اور احساس پروگرام سے مدد فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔