اسلام آباد : پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ نے آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے تفصیلی رپورٹ ایک ہفتے میں طلب کرلی۔ عدالت کا کہنا ہے کہ جب عوام کو ریلیف دینے کی باری آتی ہے تو ٹیکس لگ جاتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ اسلام آباد میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس کے اطلاق کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، جس میں سپریم کورٹ نے حکومت سے عائد ٹیکس پر وضاحت طلب کرلی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی کم قیمت ہوتی ہے تو آپ کم نہیں کرتے، بلکہ سیلز ٹیکس بڑھا دیتے ہیں، پیٹرولیم مصنوعات پر سیلزٹیکس پچیس فیصد تک کردیا گیا، چارٹ بنا کر ہمیں تفصیلات دیں۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کتنا سیلز ٹیکس وصول کر رہے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ گیارہ اعشاریہ چار فیصد سیلز ٹیکس لیا جاتا ہے، پورےخطے میں ہمارے ہاں پیٹرول کی قیمت سب سے کم ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بھارت کے ساتھ آئی ٹی کے شعبے میں ہمارا کوئی موازنہ ہے؟ آپ اپنے ٹیکس سے متعلق ہمیں بتائیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر تین طرح کے ٹیکس نافذ ہیں، کسٹم ڈیوٹی، پیٹرولیم لیوی اور سیلزٹیکس لاگو ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پیٹرولیم مصنوعات کا کیا کوئی مارجن بھی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئل کمپنیز، مارکیٹنگ اور پیٹرول پمپ ڈیلرز مارجن ہیں، حکومت خام تیل کی قیمتوں کاتعین نہیں کرتی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قیمت 100 ڈالرسے 50 ڈالرپرآجائے حکومت کم نہیں کرتی، چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ میراخیال ہے کہ پٹرولیم پرڈھاکہ ریلیف فنڈزلگا ہے، ہم مصنوعات کی قیمتوں کافرانزک آڈٹ کرائیں گے۔
مزید پڑھیں : پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیرقانونی ٹیکس پر چیف جسٹس کا ازخود نوٹس
بعد ازاں چیف جسٹس نے قیمتوں کے مکمل آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے تفصیلی رپورٹ ایک ہفتے میں جمع کرا نے کی ہدایت کردی۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔