واشنگٹن: امریکا میں قومی ایئر لائن کے ٹاؤن آفس کی منتقلی پر ادارے کو لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ گیا۔ منتقلی کا فیصلہ جرمن سی ای او نے کیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کے جرمن سی ای او برینڈ ہلڈن کے غلط فیصلے کی وجہ سے پی آئی اے کو بدترین نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق برینڈ ہلڈن نے امریکا میں موجود پی آئی اے کے کنٹری مینیجر پر دباؤ ڈالا کہ پی آئی اے کا ٹاؤن آفس نیویارک سے ختم کر کے ایئر پورٹ منتقل کیا جائے۔ کنٹری مینیجر نے جرمن سی ای او کو آگاہ کیا کہ نیویارک سے پی آئی اے کے دفتر کو ایئرپورٹ منتقل کرنے سے ادارے کو نقصان ہوگا اور اس کی سیل اثر انداز ہوگی۔
تاہم جرمن سی ای او کے مسلسل اصرار پر پی آئی اے نے اپنا ٹاؤن آفس امریکا کے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ منتقل کر دیا جس پر ادارے کو لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کے سی ای او کے بیرون ملک سفر پر پابندی
نیویارک میں پی آئی اے کا ٹاؤن آفس مرکزی مقام پر تھا۔ ایئر پورٹ پر منتقل کرنے سے پاکستان آنے والے مسافروں کو بکنگ کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکا کے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ میں پی آئی اے کا پہلے ہی ایک کارگو آفس تھا جس میں صرف 2 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی تاہم اس پر بھی ایئرپورٹ اتھارٹی کو اعتراض تھا۔ اب ٹاؤن آفس ایئر پورٹ منتقل کرنے پر امریکی ایئر پورٹ اتھارٹی نے پی آئی اے کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔
ایئرپورٹ حکام نے پی آئی اے کو 2 ماہ کی مہلت دی ہے کہ ایئر پورٹ سے اپنا ٹاؤن آفس فوری طور پر منتقل کیا جائے۔ حکام نے پی آئی اے کو انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایئر پورٹ ایک حساس جگہ ہے پی آئی اے کو یہاں ٹاؤن آفس اور بکنگ کے لیے جگہ فراہم نہیں کرسکتے۔
انہوں نے استفسار کیا ہے کہ کس کی اجازت سے یہاں آفس منتقل کیا گیا ہے۔
دوسری جانب ترجمان پی آئی اے دانیال گیلانی کا کہنا ہے کہ ایئرپورٹ حکام کی جانب سے دفتر کی جگہ کو کارگو ایریا قرار دے کر اسے منتقل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ان کے مطابق دفتر کو دوسری جگہ منتقلی کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ پی آئی اے میں مہنگے طیارے خریدنے کے معاملے پر تحقیقات جاری ہیں اور اس ضمن میں ادارے کے جرمن سی او بریند بلڈن کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
ایف آئی نے سی ای او کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال کر ان کے بیرون ملک جانے پر بھی پابندی عائد کی تاہم ان کی وطن واپسی کے لیے ان کے غیر ملکی ہونے کے استثنیٰ اور سفارتی ذرائع کے استعمال کا امکان ہے۔