اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار ادیب سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری 58 ویں برسی ہے‘ آپ 5 دسمبر 1958 میں نیویارک میں انتقال کرگئے تھے۔
پطرس بخاری 1 اکتوبر 1898ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید اسد اللہ شاہ پشاور میں ایک وکیل کے منشی تھے ،ابتدائی تعلیم پشاورمیں حاصل کی اوراس کے بعد گورنمٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے اوراعزازی نمبروں کے ساتھ ایم اے پاس کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں انہیں شعر و ادب سے گہری دلچسپی تھی‘ گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین’راوی‘کے ایڈیٹر بھی رہے۔
ایم اے کرنے کے بعد آپ انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی‘ وہاں کے اساتذہ کی رائے تھی کی بخاری کا علم اس قدر فراخ اور وسیع و بسیط ہے کہ ایک انگریز کے لیے بھی اتنا علم اس عمر میں رکھنا کم وبیش ناممکن ہے۔
پطرس بخاری اپنے ایک شاہکار مضمون ”کتے“ میں یوں رقمطراز ہیں کہ
علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا ۔ خود سرکھپاتے رہے لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا کیا فائدہ ہے۔ کہنے لگے وفادار جانور ہے اب جناب اگر وفاداری اس کا نام ہے تو شام کے سات بجے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتاربغیردم لئے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے ہی چلے گئے تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔
وطن واپس آنے پر سنٹرل ٹریننگ کالج اورپھر گورنمنٹ کالج میں انگریزی ادبیات کے پروفیسررہے۔ 1937ء میں آل انڈیا ریڈیو کا محکمہ قائم ہوا تو بخاری کی خدمات مستعار لی گئیں اور وہ سات برس تک بطورڈائریکٹر ریڈیو سے منسلک رہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد آپ لاہور آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ 1950ء میں آپ کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل نمائندہ بنا کر بھیجا گیا۔ اس عہدے پر 1954ء تک فائز رہے۔ 1955ء میں اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ آپ دسمبر 1957ء میں ریٹائر ہونے والے تھے اور کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسری قبول کرچکے تھے مگر موت نے مہلت نہ دی اور 5 دسمبر 1958ء کو صبح نیویارک میں حرکت قلب بند ہوگئی۔
اصل نام سید احمد شاہ بخاری تھا لیکن اپنے قلمی نام پطرس سے مشہور ہوئے۔ حکومت پاکستان نے ان کی وفات کے 44 برس بعد 14 اگست 2003ءکو انہیں ہلال امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا۔