’’وہ انسان جس نے اردو شاعری کو مردانہ پن بخشا۔‘‘ اقبال کی وفات سے ہندوستان ایک جلیل القدر شاعر سے کہیں زیادہ باعظمت ہستی سے محروم ہو گیا۔
وہ بطور ایک عالم اور تاریخ، فلسفہ اور مذہب کے سرگرم طالب علم بھی ان لوگوں کے لئے جو اپنی محدود قابلیت کے سبب اس کی اعلیٰ شاعری تک رسائی سے قاصر تھے، منبع فیض وجود تھا۔ بطور شاعر اگرچہ اس کا مقام نہایت بلند تھا لیکن ادبی اور عمرانی دنیا میں اثر و نفوذ کے لحاظ سے اس کا مقام اس سے بھی بلند تر تھا۔ اس کی وفات سے جہاں مسلمانوں سے ایک فصیح اللسان پیغامبر اور ان کی تہذیب کا ایک بہت بڑا شارح چھن گیا ہے وہاں اردو شاعری سے خدا معلوم کتنی دراز مدت کے لئے اہمیت اور منزلِ مقصود چھن گئی۔
کم و بیش چالیس سال گزرے جب اقبال کی شاعرانہ زندگی کا آغاز ہوا۔ اس وقت اردو شاعری اگرچہ لوگوں میں مقبول تھی اور ہر کس و نا کس اس سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ اس کا مقصد خود زندگی نہیں بلکہ محض زندگی کے حاشیہ کی تزئین سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ مقبولِ عام فن تھا مگر یہ فن محض فن کی خاطر اختیار کیا جاتا تھا۔ اس وقت شاعری کیا تھی؟ محض جذبات انگیز عیاشی، نرم و نازک، دل خوش کن، مزاحیہ یا ہجویہ، لیکن سراسر بے ربط۔ اسی لئے اس کے اختیار کرنے میں سنجیدگی اور متانت سے کام لینے کی ضرورت نہ سمجھی جاتی۔
لیکن مسلمانوں کے دلوں میں ایک نیا احساس کروٹیں لے رہا تھا۔ اور لوگوں کی زبان پر تعمیرات ملت اور ترقی کے الفاظ آنے شروع ہو گئے تھے۔ ان میں جو زیادہ ذکی الحس واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے آرٹ کو پھر ڈھونڈ نکالا کہ یہ بھی انسان کے زیادہ اہم مشاغل میں سے ایک ہے اور اس کو اعلیٰ سنجیدگی اور مقصد و مدعا سے معمور کرنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ حالی ایسا غزل گو عہد شباب کی ہوس کاریوں سے تائب ہو کر مشہور زمانہ مسدّس کا مصنف بن گیا۔ جس نے خوابِ غفلت کے متوالے ہندوستانی مسلمانوں کو اس طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا کہ کوئی ایک نظم نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ایسا کر سکی۔ ان ہی حالات میں اقبال جس نے اسی فرسودہ ڈگر پر اپنی شاعری شروع کی تھی، محسوس کرنے لگا کہ اس کا دل مسلمانوں کے احیا اور ان کی نئی زندگی کے خواب سے مضطرب اور بے قرار ہے۔
ہندوستان ہمارا
اقبال کی ابتدائی نظموں سے ہی جو اس رجحان کے ماتحت لکھی گئیں۔ اس کے ولولہ، عمل سے بے تاب دل اور اپنے وطن کے لئے جذباتِ محبت کا پتہ لگتا ہے، اس کی نظم، ’’سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے‘‘ اب تک فرقہ وارانہ اتحاد کی سب سے زیادہ پُر اثر اپیل ہے جو کسی محب وطن کے قلم سے نکلی ہو۔ اور اس کا شہرۂ آفاق گیت ”ہندوستان ہمارا“ میرے خیال میں بہترین قومی گیت ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا اور جس سے بہتر گیت کی شاید مدت مدید تک بننے کی امید نہیں ہو سکتی۔ لیکن مذہب اسلام کے غائر مطالعہ نے جو اقبال نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک مسلسل جاری رکھا۔ اس کے افق خیال کو وسعت بخشی۔ وطن اور ملک کی نسبت سے قوموں کا تصور اس کی فطرت کے خلاف تھا۔ اپنی شاعری اور اپنی گفتگو میں وہ ہمیشہ یورپ کی مثال دے کر انسانوں کو ملکوں اور وطنوں کے تنگ دائروں میں تقسیم کرنے کی بیہودگی ثابت کیا کرتا۔ وہ ایک ایسے تمدنی نصب العین کا قائل تھا جو انسانوں کو وطنوں اور قوموں کے اختلافات کی سطح سے بلند کر دے اور جو زندگی کو ایک مقصود مدعا بخشے کیونکہ اس کے نزدیک آرٹ کا با مقصد ہونا محض زندگی کے اصول علت العلل کا جزو لاینفک تھا۔ اسی قسم کی ہمہ گیری اور با مقصدیت انہیں نظر آئی تو اسلام میں یا چند جرمن فلسفیوں کی تعلیمات میں جن سے وہ بے دریغ اپنی شاعری میں استفادہ کرتا رہا۔
مجازی خیالی دنیا
جس دور سے ہم ہندوستان میں گزر رہے ہیں اگرچہ اس میں بڑے بڑے امکانات پوشیدہ ہیں تاہم اس میں ایک خاص غم ناک کیفیت موجود ہے۔ ہم میں شاید ہی کوئی فن کار ایسا ہو جس کے فن میں گھر کے لئے اداسی بطور مرض کے موجود ہو۔ ہم دور دراز خیالی دنیاؤں کے آرزومند ہیں۔ اور خواہ وہ دنیائیں خیالی ہوں یا حقیقی۔ ان کی زمانی یا مکانی دوری ہی ان کے اندر ایک بے پناہ دلکشی پیدا کر دیتی ہے۔ اقبال نے اسلام کے ابتدائی زمانے پر پُر شوق نظر ڈالی۔ اس کی آرزو تھی کہ وہ اس عہد کے مسلمانوں کی سادگی، بلند ہمتی، ایمان اور عزم و استقلال کو دوبارہ پیدا کر سکے۔ ایک عالمگیر تمدن کے لئے اس کی دلی خواہش انسان کی تقدیر میں اس کا زبردست ایمان، انسان کے ارتقا میں اس کا پختہ یقین کہ وہ مقصد کی بلندیوں کو منزل بمنزل طے کرتا ہوا کمال کی چوٹیوں پر پہنچ سکتا ہے ان شرائط کے مطابق جو مسلم گھرانے میں پیدائش کے سبب اور اسلامی تعلیمات اس کے ذہن نشین ہو چکی تھیں۔ ان سب باتوں نے اس کی شاعری کو اسلامی رنگ دے دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں اس کے بعض قدر دان اس سے چھن گئے۔
کسی شاعر کے کلام کی قدر اور اس کے اعتقاد کے باہمی تعلق کی بحث پرانی چیز ہے اور میں اس کے متعلق یہاں کچھ نہ کہوں گا۔ مگر اس میں شک نہیں کہ کچھ نہ کچھ ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو صرف اس لئے ملٹن کی شاعری سے لطف اندوز نہ ہوں کہ وہ اس کے مذہبی عقائد سے متفق نہیں یا جو شیکسپیئر کا کلام محض اس لئے پڑھنا گوارا نہ کریں کہ وہ اس کی شاہ پرستانہ خیالات کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن دوسرے لوگوں کے لئے جو کولرج کے لفظوں میں کسی شاعر کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت ”انکار کو عمداً معطل کر دیتے ہیں“ اقبال رہتی دنیا تک مشرق کا سب سے زیادہ ولولہ خیز شاعر رہے گا۔
فارسی اور اردو
اس کے بعض ہم وطنوں کی بدقسمتی ہے کہ اقبال کے بہترین کلام کا زیادہ تر حصہ فارسی میں ہے اور اس کی صرف ایک طویل نظم اسرارِ خودی کا ترجمہ جو پروفیسر نکلسن نے کیا ہے، انگریزی زبان میں ملتا ہے۔ تاہم اس کا ابتدائی کلام جو اردو میں ہے وہی اس کی ہندوستانی شاعروں میں ایک بلند مقام دینے کے لئے کافی ہے۔ لیکن خواہ اس نے اپنی نظمیں اردو میں لکھیں، خواہ فارسی میں، اس کا اردو شاعری پر گہرا اور مسلسل اثر پڑتا رہا۔ پیدائش کے لحاظ سے وہ پنجابی تھا (اصل میں اقبال کشمیری اور ذات کا سپرو تھا) اسی لئے اس کے یوپی کے نکتہ چیں اس کو ہمیشہ یہ حقیقت ایسے لفظوں میں یاد دلاتے رہے جن میں انصاف کم اور تلخی زیادہ ہوتی تھی اور اس کی شاعری کی زبان کو ٹکسال باہر ہونے کا طعنہ دیتے رہتے۔ اور یہ باوجود اس حقیقت کے کہ وہ داغ کا معنوی فرزند تھا۔ جو اردو زبان کا مسلمہ بادشاہ ہوا ہے لیکن اس کی غیر معمولی قابلیت نے اس کے نکتہ چینوں کو جلدی خاموش کر دیا۔ اور اس کی طرز شاعری کے بے شمار پہلو ملک کے طول و عرض میں پیدا ہو گئے۔ اگر افراد کی وسیع اثرات کا تذکرہ کرنا اندیشناک نہ ہو تو اس ضمن میں تین ہستیوں کا نام لیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے اپنے رنگ میں اردو ادب کو نئی اور مختار صورت بخشی ہے۔
مولانا ظفر علی خان نے زمیندار کے ابتدائی ایام میں اس میں مضمون لکھ لکھ کے اردو صحافت کو ایک ایسی زور دار اور لچکیلی زبان سے مالامال کیا جس سے وہ پہلے قطعاً ناواقف تھی۔مولانا ابوالکلام آزاد نے اردو نثر کو وہ شوکت، فراوانی اور شیرینی بخشی جس کا راز انہوں نے عربی زبان کے مطالعہ کرتے وقت پا لیا تھا لیکن چٹپٹے مضامین یا پُر اثر وعظوں کی نسبت شاعری لوگوں کے دلوں میں زیادہ دیرپا اثر رکھتی ہے اور شاعر زبان پر زیادہ گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ جدید اردو کے بنانے والوں میں اقبال (اور اسی طرح اس کا پیش رو غالب) ابھی تک سب سے نمایاں اور زبردست اثر ڈال رہا ہے۔ ہزاروں ترکیبیں اور الفاظ جو ان دونوں استادان فن نے گھڑے یا اپنے فارسی کے پیشرو استادوں سے مستعار لئے آج بھی اردو تحریر اور تقریر میں ان کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
(اردو کے ممتاز ادیب، طنز نگار اور ماہرِ نشریات پطرس کے انگریزی مضمون کا ترجمہ از صوفی ریاض حسین)