اشتہار

جمالیاتی احساس اور حیوان

اشتہار

حیرت انگیز

انسان حیوانِ‌ ناطق ہے جو اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار دوسری مخلوقات کے مقابلے میں‌ زیادہ بہتر اور مؤثر انداز میں کرسکتا ہے، لیکن روئے زمین پر جو چرند پرند موجود ہیں وہ بھی جذبات اور احساسات سے عاری نہیں ہوتے۔ آج جدید دور میں‌ ہم اس حوالے سے کئی ویڈیوز بھی دیکھتے ہیں‌ مثلاً شیر کا ہرن کے بچّے کو شکار نہ کرنا اور اس کے ساتھ کھیلنا بلکہ حملہ کرنے والے دیگر درندوں سے اس کی حفاظت کرنا۔

یہاں ہم مشہور مؤرخ اور فلسفی ول ڈیورانٹ کی کتاب "نشاطِ فلسفہ” (The Pleasures of Philosophy) کے ایک باب سے اسی حوالے سے اقتباس پیش کررہے ہیں‌ جس کے مترجم ڈاکٹر نعیم احمد ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

آئیے ہم حیوانوں کا مطالعہ کریں اور احساسِ حسن کے سرچشمہ تک پہنچیں۔

- Advertisement -

ہمارا یہ خیال غلط ہے کہ فقط انسان ہی کو جمالیاتی احساس ودیعت کیا گیا ہے۔ بہت سے حیوان اس بے پَر و بال دو پائے سے زیادہ حسین ہیں جو دنیا پر حکومت کرتا ہے اور غالباً وہ ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ احساسِ حسن فقط ہم رکھتے ہیں کیونکہ ہم حسن کو نظر اور بینائی کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں۔ حیوانوں میں جمالیاتی لرزش شامہ کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔

حیوانوں کی آنکھیں بھی حسن کی حساسیت رکھتی ہیں۔ ڈارون کہتا ہے کہ "کچھ پرندے اپنے گھونسلوں کو رنگین پتّوں اور گھونگھوں، پتھروں اور پروں اور کپڑے کے ان ٹکڑوں سے سجاتے ہیں جو انسانوں کے گھروں میں پائے جاتے ہیں۔ "مرغِ فردوس اپنے شریکِ زندگی کے لیے خاص گھونسلا بناتا ہے جو گھنی جھاڑی سے ڈھکا ہوتا ہے اور اس کے فرش پر گھاس پھونس چنی ہوتی ہے، وہ قریبی چشمہ سے سفید کنکر لا کر فن کارانہ طریق پر دو رویہ رکھتا ہے، وہ دیواروں کو چمک دار پروں، سرخ بیریوں اور دوسری خوب صورت چیزوں سے آراستہ کرتا ہے۔ آخر میں وہ دروازے کو دریائی صدفیوں اور درخشاں سنگریزوں سے ایک حسن و وقار بخشتا ہے۔ یہ وہ قصر ہے جو مرغِ فردوس اپنی محبوبہ کے لیے تیار کرتا ہے۔ بوش کہتا ہے، "صرف ایک مرتبہ محل کو دیکھنے سے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ حسن و جمال سے لطف اندوز ہونا اس پرندے کی فطرت میں داخل ہے۔” کچھ پرندے اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھتے ہیں۔ آئینہ کو سورج کی روشنی سے چمکائیے تو بتہ سے چکاوک جمع ہوجائیں گے۔ باوجود گولیوں کی بوچھاڑ کے یہ پرندے اندھی آرزو سے متوالے ہو کر اس کی جانب بڑھیں گے۔ مینا، پہاڑی کوا اور دوسرے پرندے، چمک دار اشیاء چاندی اور جواہرات چراتے ہیں۔ خود پسندی تجسّس یا ہوس۔ کون انہیں اس حرکت پر مجبور کرتے ہیں کوئی نہیں جانتا۔ لیکن مردہ چیزوں میں حسن دیکھنے کی صلاحیت صرف چند جانوروں میں پائی جاتی ہے۔ اور ان کا جمالیاتی شعور معمولی اور ثانوی ہوتا ہے۔

ڈارون کہتا ہے "اکثر حیوانوں میں احساسِ حسن صرف جنسِ مخالف کی کشش تک ہی محدود ہوتا ہے۔”

ہمارے مطالعہ کے لیے اس منکسرالمزاج سائنسدان کا یہ سادہ قول نہایت مفید ہے۔ اگر ڈارون صحیح کہتا ہے تو یہ بات ظاہر ہے کہ احساس حسن، جنسی کشش سے پیدا ہوتا ہے۔ حسین چیز وہ ہے جسے ہم جنسی طور پر پسند کریں اور اگر دوسری چیزیں ہمیں حسین معلوم ہوں تو وہ محض ثانوی طور پر اور جمالیاتی احساس کے اس سرچشمہ سے وابستگی کی بنا پر حسین معلوم ہوتی ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں