اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ملک بھارت کو انتہا پسند چلا رہے ہیں، بھارت پر ایک خاص انتہا پسندانہ نظریاتی سوچ ہندووتوا غالب آچکی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے جرمن میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کے پاس بہت زیادہ صلاحیتیں اور امکانات ہیں، 1960 کےعشرے میں پاکستان ترقی کے لیے ایک ماڈل تھا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ درست ہے ہم مشکل ہمسائیگی والے ماحول میں رہتے ہیں، ہمیں اپنے اقدامات کو متوازن رکھنا ہی ہے، سعودی عرب پاکستان کےعظیم ترین دوستوں میں سے ایک ہے، ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں، کوشش ہے ایران اور سعودی کے مابین تعلقات خراب نہ ہوں، خطہ ایک اور تنازعے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
بھارت سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ پہلا لیڈر ہوں جس نے خبردار کیا تھا کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے، بھارت پر ایک خاص انتہا پسندانہ نظریاتی سوچ ہندووتواغالب آچکی ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آرایس ایس 1925 میں جرمن نازیوں سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی، آر ایس ایس کی بنیاد مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں سے نفرت ہے، بھارت اور ہمسایوں کے لیے المیہ ہے کہ آرایس ایس نے ملک پر قبضہ کرلیا، بھارتی عوام یاد رکھیں آرایس ایس نے مہاتما گاندھی کو قتل کرایا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ وزیر اعظم بنا تو نریندرمودی کے ساتھ مکالمت کی کوشش کی، پہلی تقریر میں کہا تھا بھارت ایک قدم بڑھے گا تو ہم دو قدم بڑھیں گے، بھارت نے آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کی وجہ سے اچھا ردعمل نہیں دیا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بھارت نے یکطرفہ طور پر کشمیرکو اپنے ریاستی علاقے میں ضم کر لیا، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق خطہ متنازع علاقہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی حصے سے کسی کو بھی پاکستان آنے کی دعوت دیتے ہیں، کوئی بھی آئے پہلے آزاد کشمیر کا دورہ کرے پھرمقبوضہ کشمیر بھی جائے، دنیا کو معلوم ہو جائے گا آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیرمیں کیا فرق ہے۔
وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھارت عالمی مبصرین کو جانے نہیں دیتا، پاکستان کسی بھی ریفرنڈم یا استصواب رائے کے لیے تیار ہے، فیصلہ کشمیریوں کو کرنا ہے بھارت کی ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزادی چاپتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افسوس ہانگ کانگ میں مظاہروں کو میڈیا توجہ دیتا ہے لیکن کشمیر پر نہیں ہے، بدقسمتی سے مغربی ممالک کے لیے تجارتی مفادات زیادہ اہم ہیں، کشمیریوں اوربھارت میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر دنیا خاموش ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں فائربندی کی طرف پیشرفت جاری ہے، اشرف غنی کے انتخاب کے بعد افغانستان میں نئی حکومت آچکی ہے، امید ہے امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کامیاب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن سے تجارت کے نئے امکانات پیدا ہوں گے، افغانستان ہمارے لیے بھی ایک اقتصادی راہداری بن سکتا ہے، پاکستان نے افغان امن مذاکرات میں اپنا کردار ادا کیا ہے، ہمارا جتنا بھی اثرور سوخ ہے ہم نے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔