نیویارک: وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو قرض سے خاطر خواہ ریلیف کی ضرورت ہے، دنیا کو پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ آج ہم موسمیاتی تبدیلی کا نشانہ بنے کل کوئی اور ملک بھی بن سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے امریکی ٹی وی بلوم برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس وقت سیلاب متاثرین کے ساتھ ہونا چاہیئے تھا، میں یہاں اس لیے ہوں کہ دنیا کو بتا سکوں ہمارے ملک میں کیا ہوا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سےکلاؤڈ برسٹ ہوا، موسمیاتی تبدیلی میں ہمارا حصہ نہیں ہے۔ پاکستان کا کاربن گیسز کا اخراج ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے، 400 بچوں سمیت 1500 افراد جاں بحق ہوئے، سیلاب کے باعث 4 ملین ایکڑ رقبے پر فصلیں تباہ ہوگئیں جبکہ 10 لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ اور تباہی کا مشاہدہ کیا، انہوں نے سیلاب سے تباہی کو ناقابل یقین قرار دیا۔ امریکی صدر نے بھی پاکستان میں سیلاب سے متعلق بات کی ان کا شکر گزار ہوں۔
Prime Minister Shehbaz Sharif’s interview with Bloomberg #UNGA #PMPAKatUNGA @CMShehbaz @Marriyum_A @PakPMO @MoIB_Official @ForeignOfficePk
#PMShehbazAtUNGA https://t.co/Ku1f59vmRf— Radio Pakistan (@RadioPakistan) September 23, 2022
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے، 3 لاکھ بچے وبائی امراض اور بھوک کا شکار ہیں، پاکستان کو قرض سے خاطر خواہ ریلیف کی ضرورت ہے۔ یو این سیکریٹری جنرل اور یورپی ممالک کے سربراہان سے کہا کہ ریلیف کے لیے مدد کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب سے ابتدائی طور پر نقصان کا تخمینہ 30 بلین ڈالر لگایا گیا ہے، دنیا کو پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بات کی کہ متاثرہ افراد کے لیے پروگرام بنایا جائے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں ہر ماہ پیٹرول اور بجلی کی قیمت بڑھانا پڑتی ہے، میری روسی صدر سے ملاقات ہوئی۔ روسی صدر سے پیٹرول خریدنے اور اناج کی برآمد کی بات کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تمام دوستوں کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوں، سیاست چھوڑ کر ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ آج ہم موسمیاتی تبدیلی کا نشانہ بنے کل کوئی اور ملک بھی بن سکتا ہے۔
وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ بھارت ہمارا پڑوسی ہے اور ہمیں ہمیشہ ساتھ رہنا ہے، یہ ہمیں طے کرنا ہے کہ پرامن پڑوسی بن کررہنا ہے یا کشیدگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں، بھارت کے ساتھ صرف ایک مسئلہ ہے اور وہ کشمیر کا ہے، بھارت کشمیر پر بات کرنے کو تیار ہے تو ہم بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔