اتوار, ستمبر 8, 2024
اشتہار

زیڈ اے بخاری کا تذکرہ جو نئی منزلوں کی تلاش میں‌ رہتے تھے!

اشتہار

حیرت انگیز

ذوالفقار علی بخاری کو قدرت نے بڑی سخاوت اور فیاضی سے فنون و ادب میں امتیاز و اعتبار بخشا وہ متعدد زبانیں‌ جانتے تھے اور اردو زبان و بیان کی باریکیوں کو خوب سمجھتے تھے اور تلفظ و ادائی سے متعلق ان کا کہا سند سمجھا جاتا تھا۔ انھیں عام طور پر زیڈ اے بخاری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ شاعر و ادیب، بہترین صدا کار اور ماہرِ نشریات زیڈ اے بخاری 12 جولائی 1975ء کو وفات پاگئے تھے۔

پشاور کے زیڈ اے بخاری کے ایک بھائی احمد شاہ بخاری المعروف پطرس بخاری تھے جنھیں خاص طور پر طنز و مزاح کے حوالے سے شہرت ملی اور وہ تقسیم سے قبل برطانوی ہند میں‌ ریڈیو سے بھی وابستہ رہے۔ پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل بھی تھے۔ بعد میں وہ پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے اور اقوامِ متحدہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ زیڈ اے بخاری، پطرس کے چھوٹے بھائی جو براڈ کاسٹنگ کی دنیا میں ایک اساطیری کردار کے طور ابھرے۔

زیڈ اے بخاری 1904ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا۔ انھیں پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انار کلی‘‘ میں سلیم کا کردار نبھانے کا موقع ملا اور زیڈ اے بخاری نے اس بہروپ میں خوب داد و تحسین حاصل کی۔ 1936ء میں جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب ریڈیو سے منسلک ہوگئے اور 1938ء میں ریڈیو نشریات کے‌ حوالے سے تربیت حاصل کرنے لندن چلے گئے۔ 1940ء میں وہ جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل لندن سے منسلک ہوئے اور اسی زمانے میں بی بی سی سے اردو سروس کے لیے کام شروع کیا۔ لندن سے واپس آکر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بخاری صاحب کو ریڈیو پاکستان کا پہلا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔

- Advertisement -

ذوالفقار علی بخاری بی بی سی اردو سروس کے اوّلین بانی ہیں۔ جب وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے تو انہیں لندن بلایا گیا اور بی بی سی کی اردو سروس شروع کی گئی جس کے وہ بانی ممبران میں سے ایک تھے۔ ان کا کام اور ان کی آواز اپنی مثال آپ تھی۔ زیڈ اے بخاری کے بھائی پطرس بخاری برطانوی دور کے دہلی ریڈیو سے وابستہ رہے تھے۔ پطرس جب اسٹیشن ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہے تھے تو اس وقت زیڈ اے بخاری ڈائریکٹر پروگرامز کے عہدے سے ترقی پاکر اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن چکے تھے۔ اس زمانے میں ان بھائیوں کی ریڈیو پر گویا اجارہ داری تھی۔ دونوں بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ اس وقت دیوان سنگھ مفتون کا اخبار ‘ریاست بہت مقبول تھا اور اس میں خاص طور پر حکومت، اشرافیہ اور نواب اور راجاؤں کے خلاف مضامین شایع ہوتے تھے۔ اس بڑے ادیب اور مدیر دیوان سنگھ مفتون کے ذہنِ رسا کو ایک انوکھا خیال سوجھا۔ انھوں نے BBC (ریڈیو) کو ”بخاری برادرز کارپوریشن‘‘ کا مخفف لکھ دیا۔ یہ بڑی دل چسپ اور معنی خیز اصطلاح تھی جو اس زمانے میں ایک مذاق کے طور پر بہت مقبول ہوئی۔

نومبر 1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہوا تو زیڈ اے بخاری اس کے پہلے جنرل منیجر مقرر کیے گئے۔ انھوں نے اردو زبان و بیان اور تلفظ کی درست ادائی کو ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر بھی یقینی بنایا اور کئی آرٹسٹوں کی تربیت ان کے زیرِ سایہ ہوئی۔

بخاری صاحب کو شعر و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد اسد اللہ شاہ بخاری صاحبِ دیوان نعت گو شاعر تھے۔ بڑے بھائی پطرس بخاری کا تذکرہ ہم کرچکے۔ یوں گھر کا علمی و ادبی ماحول اور ابتدا ہی سے اچّھے شاعروں کی صحبت نے انھیں بھی بہترین استاد بنا دیا تھا۔ وہ حسرت موہانی، علامہ اقبال، یاس یگانہ چنگیزی اور وحشت کلکتوی جیسے نادرِ روزگار شخصیات کی صحبت میں رہے۔ عربی میں آپ نے مولانا عبدالعزیز میمن اور فارسی میں مولانا شاداب بلگرامی سے کسبِ فیض کیا۔

وہ ایک بلند پایہ صدا کار بھی تھے۔ زیڈ اے بخاری نے ریڈیو کے کئی ڈراموں کے لیے صدا کاری کی اور ان کے کردار سننے والوں کے دل پر نقش ہوگئے۔ شاعری اور مضمون نگاری بھی کی جب کہ فنِ موسیقی سے گہرا شغف ہی نہیں تھا اس فن کے اسرار و رموز بھی جانتے تھے اور اس فن پر ایک کتاب بھی تحریر کی۔ زیڈ اے بخاری ہفت زبان یوں‌ کہلائے کہ انھیں فارسی، اردو، پنجابی، پشتو، بنگالی، برمی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ بخاری صاحب نے اپنے حالاتِ زندگی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیے تھے جو اردو کا گراں قدر سرمایہ ہے۔

’’سرگزشت‘‘ ذوالفقار علی بخاری کی وہ خود نوشت ہے جس میں قاری کو خاص طور پر ریڈیو کے ابتدائی زمانہ کی داستان پڑھنے کو ملتی ہے۔ اسی ریڈیو کے فن کار بعد میں ٹیلی ویژن کی طرف آئے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں لکھا ہے’’ ناامیدی کے کفر نے بارہا میرے ایمان پر حملہ کیا، کئی بار کفر کے لشکر نے میرے ایمان کو پسپا کردیا۔ کئی بار میں نے خدائے حقیقی کے آستانے کو چھوڑ کر خداوندانِ مجازی کی چوکھٹ کو سجدہ کیا لیکن اس منعم حقیقی و برحق کا ہزار ہزار شکر ہے کہ مجھے ان مجازی خداوندوں کے گھر سے کچھ نہ ملا۔ اس سے میری یہ مراد نہیں کہ مجھے دوستوں اور بزرگوں سے کوئی فیض نہیں پہنچا، وہ ہمیشہ میرے معاون و مددگار رہے۔ دنیا میں روپے پیسے کی ضرورت کس کو نہیں ہوتی۔ پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے اس دنیاوی حاجت روا روپے پیسے کی تلاش کرنا ہی پڑتی ہے۔ میں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا ہے، نان شبینہ کے حصول کے لیے تگ و دو کر رہا ہوں۔ بسا اوقات میں نے قرض لے کر روٹی کھائی، نہ صرف روٹی کھائی بلکہ قرض لے کر فاقہ مستی بھی کی اور اب بھی کم و بیش یہی حال ہے، مگر میں خوش ہوں، ایسا خوش ہوں کہ اگر آواگون کا قائل ہوتا تو خدا سے دعا مانگتا کہ اے خدا! اس زندگی کے بعد بھی مجھے یہی زندگی عطا فرما۔ میری خوشی اور اطمینان کا باعث میرے قلب کی ایک ایسی کیفیت ہے کہ جس کا کوئی نام نہیں رکھ سکتا۔ اس کو روحانیت کہتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ ایک تو مجھ جیسا گناہ گار، گرگِ معاصی کا شکار، روحانیت کا دعویٰ کس منہ سے کرے اور دوسرے یہ کہ یہ زمانہ روحانیت کا نام لینے کا نہیں۔‘‘

زیڈ اے بخاری کی یہ سرگزشت اپنے وقت کے نامور لوگوں کے تذکروں سے مزین ہے جن میں چرچل، ٹی ایس ایلیٹ، ای ایم فاسٹر، جارج اورویل، بلراج ساہنی کے دل چسپ قصّے بہت لطف دیتے ہیں اور یہ سب زیڈ اے بخاری کے دوست تھے۔

بخاری صاحب نے مختلف راگوں اور راگنیوں پر کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی یادگار چھوڑی۔ ان کا کلام ’’میں نے جو کچھ بھی کہا‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں