ناقدین کی رائے ہے کہ انیسویں صدی میں ایملی ڈکنسن نے اپنی شاعری کے موضوعات کو برتنے میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ ہیئت کے تجربات کیے وہ اس کی شاعری کو اگلی صدی میں بھی زندہ رکھے گا۔ ایملی ڈکنسن کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
ایملی ڈکنسن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تنہائی پسند اور دروں بیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظموں میں یاسیت کا رنگ گہرا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی یہ عظیم شاعرہ اپنی زندگی میں سنکی مشہور تھی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب اور محلّے داروں میں اپنی خلوت پسندی اور میل جول سے احتراز کے سبب عجیب و غریب عورت مشہور ہو گئی تھی۔ بظاہر ایملی کی تنہائی پسندی غیرمعمولی یا پریشان کُن تو نہیں تھی، لیکن وہ اپنے پڑوسیوں یا رشتے داروں سے بھی بات چیت نہیں کرتی تھی بلکہ ان کا سامنا کرنے سے کتراتی تھی۔ اس کی وجہ موت کا نفسیاتی دباؤ تھا۔ ایملی ڈکنسن جواں عمری میں موت کو اپنے اور دوسرے انسانوں کے لیے ایک بڑا عفریت تصوّر کرنے لگی تھی۔ اس کی یہ ذہنی حالت ایک قریبی عزیز کی موت کے بعد دوسروں پر کھلی تھی۔ اس موقع پر انھوں نے ایملی کو شدید صدمے کی کیفیت میں ڈوبا ہوا پایا تھا۔
ایملی ڈکنسن کی شاعری نے واقعی اس کے عہد ہی نہیں، اگلی صدی میں بھی اس کے قارئین کے ذہنوں کو متاثر کیا۔ لیکن بطور شاعرہ اس کی شہرت کا سفر اس کی موت کے بعد شروع ہوا۔ ایملی ڈکنسن 10 دسمبر 1830ء کو امریکی ریاست میساچوسسٹس کے شہر ایمہرسٹ میں پیدا ہوئی۔ اس کے والد ڈیوڈ ڈکنسن پیشے کے اعتبار سے وکیل اور ایمہرسٹ کالج کے ٹرسٹی تھے۔ وہ اپنے شہر کی نمایاں اور قابل و باصلاحیت شخصیت تھے۔ اگرچہ یہ خاندان مالی طور پر مستحکم نہیں تھا، اس کے باوجود والد نے اپنی اولادوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور وہ بطور شہری انھیں کارآمد اور مفید بنانا چاہتے تھے۔ دراصل وہ ایک مہذّب اور اصولوں کی پاس داری کرنے والے انسان تھے اور یہی اوصاف وہ اپنے بچوں میں منتقل کرنا چاہتے تھے۔ ایملی ڈکنسن کو پرائمری کی تعلیم کے لیے قریبی اسکول میں داخل کروایا گیا اور بعد میں وہ ایمہرسٹ کی اکیڈمی میں 7 برس کے دوران دیگر مضامین کے ساتھ کلاسیکی ادب پڑھتی رہی۔ ایملی بچپن ہی سے موسیقی اور پیانو بجانے میں دل چسپی لینے لگی تھی جب کہ ایک طالبہ کی حیثیت سے ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ شاعری کی جانب متوجہ ہوئی اور نظمیں لکھنے لگی۔
ایملی اس قدر شرمیلی یا محتاط تھی کہ قریبی لوگوں پر بھی بطور شاعرہ ایک عرصہ تک نہیں کھلی۔ اسے خط کتابت کا بھی شوق تھا۔ اس نے قلمی دوستیاں کیں اور علمی و ادبی شخصیات سے مکتوب کے ذریعے رابطہ رکھا۔ اس کے باوجود زندگی میں ایملی ڈکنسن کو بطور شاعرہ بہت کم لوگ جان سکے۔ 1850ء کے اواخر میں سموئیل بولس نامی ایک صحافی اور جریدے کے مدیر سے اس کا رابطہ ہوا اور اس طرح ایملی ڈکنسن کی چند نظمیں قارئین تک پہنچیں جس نے ایملی ڈکنسن کو خوشی اور حوصلہ دیا۔ بعد میں سموئیل اپنی اہلیہ کے ساتھ ایملی ڈکنسن سے ملنے کئی مرتبہ اس کے گھر بھی آیا۔ ایملی ڈکنسن نے اسے تین درجن سے زائد خطوط بھی لکھے تھے اور لگ بھگ پچاس نظمیں ارسال کی تھیں۔ ایملی ڈکسنن کی متعدد نظمیں بھی اس دور کے چند ادبی پرچوں کی زینت بنی تھیں، تاہم ان کی تعداد قابلِ ذکر نہیں۔ 15 مئی 1886ء میں ایملی ڈکنسن کے انتقال کے بعد اس کی بہن نے نظموں کو اکٹھا کر کے کتابی شکل میں شایع کروایا اور ایملی ڈکنسن امریکہ بھر میں پہچانی گئی۔
ایملی ڈکنسن کی اکثر نظمیں موت اور ابدیت کے موضوع پر ہیں جب کہ اپنے ارسال کردہ خطوط میں ان موضوعات کے علاوہ ایملی ڈکنسن نے جمالیات، فطرت، روحانیت اور سماجی معاملات پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
ایملی ڈکنسن نے تا عمر شادی نہیں کی۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس شاعرہ کی موت کے بعد صرف ایک ہی تصویر کئی سال تک ادبی رسائل میں اس سے متعلق مضامین کے ساتھ شایع ہوتی رہی، اور پھر 1995ء میں اس کی دوسری تصویر سامنے آئی۔ کسی مداح نے ایک نیلامی کے دوران ایملی ڈکنسن کو پہچان کر اس کی وہ تصویر حاصل کرلی تھی۔ لیکن وہ دس سال تک اسے منظرِ عام پر نہیں لایا۔ بعد میں ثابت ہوا کہ وہ ایملی ڈکنسن ہی کی تصویر ہے۔ اس میں وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ موجود ہے۔ اس وقت ایملی ڈکنسن 17 برس کی تھی۔