غالب کے رفقا میں سے ایک حاتم علی بیگ بھی تھے۔
پیشہ ان کا وکالت تھا۔ برطانوی دور میں ہائی کورٹ سے وابستہ رہے۔ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ علمی اور ادبی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ نہایت باذوق اور شاعر بھی تھے، مگر ان کا بہت کم کلام سامنے آیا ہے۔
حاتم علی بیگ کا تخلص مہر تھا۔ ان کی ایک غزل آپ کے حسنِ ذوق کی نذر ہے۔
ذکرِ جاناں کر جو تجھ سے ہو سکے
واعظ، احساں کر جو تجھ سے ہو سکے
رازِ دل ظاہر نہ ہو اے دودِ آہ
داغ پنہاں کر جو تجھ سے ہو سکے
اے مسیحا مجھ کو ہے آزارِ عشق
میرا درماں کر جو تجھ سے ہو سکے
چپ ہے کیوں او بُت خدا کے واسطے
کچھ تو ہوں ہاں کر جو تجھ سے ہو سکے
دل تو اس پر آج صدقے ہو گیا
تُو بھی اے جاں کر جو تجھ سے ہو سکے
وہ پری میری مسخر، ہو یہ کام
اے سلیماں کر جو تجھ سے ہو سکے!