کراچی: اردو ادب کی دنیا کے معروف شاعر اور ماہر لسانیات لیاقت علی عاصم کی زندگی کا چراغ سرطان کے مرض نے بجھا دیا۔
تفصیلات کے مطابق اردو دُنیا کے ممتاز شاعر اور ماہر لسانیات لیاقت علی عاصم سرطان کے مرض سے لڑتے لڑتے گزشتہ روز 28 جون کو زندگی کی بازی ہار گئے انہوں نے سوگواران میں بیوہ، دو بیٹے اوردو بیٹیاں چھوڑیں۔
نامورشاعر کی تدفین آج کراچی کے محمد علی شاہ قبرستان میں کی گئی، ادب کی دنیا کا بڑا نام بچھڑنے اورموثر آواز کے گم ہوجانے پر اہل خانہ اور اردو سے محبت کرنے والے لوگ دل گرفتہ ہیں۔
لیاقت علی عاصم 14 اگست 1951ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اردو ڈکشنری بورڈ میں 1980ء سے 2011ء تک علم و ادب کی خدمت کی اوربحیثیت ایڈیٹر اردو ڈکشنری بورڈ ریٹائر ہوئے۔
تین عشروں تک اردو لغت بورڈ میں خدمات انجام دینے والے لیاقت علی عاصم کے کل 8 شعری مجموعے شائع ہوئے، اُن کی پہلی تصنیف 1977 میں سبدِ گل کے نام سے شایع ہوئی، 1988 میں آنگن میں سمندر، 1996 میں رقص وصال، 2008 میں نشیبِ شہر، 2011 میں دل خراشی، 2013 میں باغ تو سارا جانے ہے، 2017 میں نیشِ عشق شائع ہوئے۔
انتقال سے ایک ہفتہ قبل اُن کا آخری شعری مجموعہ ’’میرے کتبے پہ اُس کا نام لکھو‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
منتخب اشعار
اس سفر سے کوئی لوٹا نہیں کس سے پوچھیں
کیسی منزل ہے جہان گزراں سے آگے
****
کبھی یہ غلط کبھی وہ غلط کبھی سب غلط
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
****
کہاں تک ایک ہی تمثیل دیکھوں
بس اب پردہ گرا دو تھک گیا ہوں
****
منانا ہی ضروری ہے تو پھر تم
ہمیں سب سے خفا ہو کر منا لو
****
فارغ نہ جانیے مجھے مصروف جنگ ہوں،
اس چپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی،
مرنے کا کوئی خوف نہ جینے کی آرزو،
کیا زندگی دوام سے آگے نکل گئی