پیر, مارچ 3, 2025
اشتہار

ناصر کاظمی: اردو شاعری کا مقبول نام

اشتہار

حیرت انگیز

ناصر کاظمی کو اردو شاعری کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ وہ آج بھی ایسے مقبول شاعر ہیں جس نے غزل کو نئی تب و تاب بخشی اور جدید شاعری میں ان کا نام نمائندہ شاعر کے طور پر لیا گیا۔ اس مقبولیت کی ایک وجہ ناصر کا وہ طرزِ بیان ہے جس میں شدّتِ جذبات کے ساتھ سوز اور تحیّر و وفور ہے۔

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

یہ ناصر کاظمی کی غزل کے وہ اشعار ہیں‌ جن میں‌ حسن و عشق کا موضوع اور کسک کا وہ پہلو نمایاں‌ ہے جس کے لیے ناصر اردو ادب میں پہچانے جاتے ہیں۔ ناصر نے اپنے دور میں اردو شاعری کے تمام روایتی مضامین کو برتا لیکن اس میں خوش سلیقگی کے ساتھ ان کی وہ انفرادیت اور اسلوب حاوی رہا جس کے بعد کسی شعر کو گویا عمرِ حضر مل سکتی ہے۔ شاعری کے عام موضوعات جیسے زندگی کی تلخیاں، محرومیاں، حسرتیں، عیش و طرب اور سرشاری کو ناصر کاظمی نے بہت شدّت کے ساتھ اپنے اشعار میں‌ سمو دیا۔ انھوں نے روایتی شاعری سے انحراف کیے بغیر وہ جدید لب و لہجہ اپنایا، جو عام فہم بھی تھا اور نہایت دل نشیں‌ بھی۔ ان کے ہم عصروں میں بعض شعرا نے اس کے برعکس روایتی شاعری کو ترک کرنے اور نئی تشبیہات و استعارات کے ساتھ ان مضامین کو اپنی شاعری میں‌ جگہ دینے کی کوشش کی جو ان کے خیال میں تازہ کاری اور جدید دور کے قارئین کو متاثر کرسکتے تھے۔ لیکن ناصر کی طرح وہ غزل کی روایت کو تخلیقی وفور کے ساتھ آگے بڑھانے سے قاصر رہے۔ یوں شہرت ناصر کا مقدر بنی۔

ناصر کاظمی کا یہ مشہور شعر پڑھیے۔

ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

سادگی و سلاست، روانی اور برجستگی ایک عام سی بات کو کئی معنی اور مفاہیم دے دیتی ہے اور ناصر کاظمی یہ ہنر جانتے تھے۔

شاعر ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ وہ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کرنے کے بعد ناصر کاظمی نے بی اے کی سند لینے کی غرض سے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم ترک کرنا پڑی۔ آزادی سے قبل ناصر کاظمی ایک نہایت آسودہ زندگی بسر کررہے تھے لیکن تقسیم کے بعد پاکستان میں‌ انھوں‌ نے ایک معمولی رہائش کے ساتھ مختلف نوکریاں‌ کرتے ہوئے زندگی گزار دی۔

عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے اپنی شاعری کو مزین کیا۔

ناصر کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا۔ ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

2 مارچ 1972ء کو ناصر کاظمی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں