پیر, جولائی 1, 2024
اشتہار

میتھیو کی قبر (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

اشتہار

حیرت انگیز

بہت پرانے زمانے کی بات ہے، ایک سوداگر پڑوسی ملک سے واپس اپنے گھر لوٹ رہا تھا۔ وہ کئی مہینوں بعد اپنے گھر جا رہا تھا اور اسی لیے وہ بہت خوش بھی تھا۔

سوداگر جس چھکڑے پر سفر کر رہا تھا، وہ تجارتی سامان سے لدا ہوا تھا۔ لیکن سڑک جگہ جگہ سے ٹوٹی پھوٹی تھی اور گھوڑے چھکڑے کو بڑی مشکل سے کھینچ پا رہے تھے۔ وہ جس جگہ تھا، وہاں ایک اور راستہ جنگل میں سے بھی گزرتا تھا۔ سوداگر کو گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اس لیے اس نے جنگل والے راستے کا اںتخاب کیا۔

اندھیری رات تھی۔ نہ چاند، نہ ستارے۔ سوداگر کی بدقسمتی تھی کہ جنگل میں ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ بارش ہونے لگی۔ ایک تو اندھیرا دوسرے کیچڑ بھی ہوگئی۔ گھوڑے بڑی مشکل سے ایک جگہ سے چھکڑا کھینچ کر نکالتے تو وہ تھوڑی دور جا کر دوسری جگہ پھنس جاتا۔ بجلی کڑک رہی تھی، بادل گرج رہے تھے کہ اچانک چھکڑا ایک گڑھے میں پھنس گیا۔ پہیے آدھے سے زیادہ پانی میں ڈوب گئے تھے اور باہر نکلنے کی کوئی صورت نہیں نظر آتی تھی۔ سامان قیمتی تھا۔ سوداگر اُسے چھوڑنا بھی نہ چاہتا تھا۔ اس نے یہ کیا کہ گھوڑوں کو کھولا، جو سامان ان پر لادا جا سکتا تھا، لاد دیا، جو خود اٹھا سکتا تھا وہ اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا اور آگے چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ اپنے آپ سے کہنے لگا: ”میں بھی تھکا ہوا ہوں، گھوڑے بھی تھک چکے ہیں۔ آخر ہم اس کالی رات میں کہاں تک چلیں گے۔ اور کوئی جنگلی جانور ہمیں کھا گیا تو کسی کو پتا بھی نہ چلے گا۔ اگر کوئی جن بھوت، شیطان یا انسان مجھے اس خوف ناک جنگل سے باہر نکال دے تو میں اپنا آدها سامان اسے دے دوں گا۔“

- Advertisement -

جوں ہی یہ بات اُس کے منھ سے نکلی، بادل زور سے گرجا، بجلی زور سے کڑکی اور پھر بادل کے پیچھے سے چاند نکل آیا ۔ چاند کی روشنی میں سوداگر نے دیکھا کہ راستے کے ایک طرف ایک چھوٹی سی عجیب و غریب مخلوق کھٹری ہے۔ یہ ایک چھوٹے سے قدر کا انسان تھا، جس کے سر پہ لمبوتری ٹوپی تھی۔ پاؤں میں ایسے جوتے تھے جن میں سے اُس کے نوکیلے پاؤں باہر نکلے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ اس کا چہرہ خوف ناک تھا۔ آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور ہاتھ ایسے تھے جیسے شیر کے پنجے ہوں۔

اب تو سوداگر بہت گھبرایا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ ضرور کوئی جن یا بھوت ہے۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہووت۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ چھلاوا آگے آیا اور گرجتی ہوئی آواز میں بولا: ”تمہاری خواہش کے مطابق میں تمہیں جنگل سے نکال کر گھر کے راستے پر ڈال سکتا ہوں۔ لیکن ایک شرط ہے ۔“

”کیسی شرط ۔۔۔۔“ سوداگر گھبرا کر بولا۔

چھلاوا بولا: ”تمہیں وعدہ کرنا ہو گا کہ اگر تم گھر پہنچ کر وہاں کوئی ایسی چیز دیکھو جو اس سے پہلے تمہارے گھر میں نہیں تھی اور جس کا تمہیں اس وقت پتا نہیں ہے، تو وہ میری ہو جائے گی اور میں جب چاہوں اسے تم سے لے لوں گا۔“

سوداگر نے بہت غور کیا، خوب خوب سوچا لیکن اُس کے ذہن میں ایسی کوئی چیز نہ آئی جو اس کی غیر حاضری میں گھر میں آ سکتی ہو۔

وہ بولا: ”ٹھیک ہے۔ مجھے منظور ہے۔“

یہ بات سنتے ہی چھلاوے نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا جس پر شرطیں لکھی ہوئی تھیں۔ پھر اُس نے سوداگر کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں اپنا ناخن مارا۔ خون نکلا تو اس نے اُس میں پَر ڈبویا اور سوداگر کو کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا۔

اس کام سے فارغ ہو کر چھلاوے نے سیٹی بجائی۔ سیٹی کی آواز جنگل میں گونجتے ہی ہر طرف اسی کی شکل کے چھلاوے نظر آنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُنہوں نے سوداگر کا تمام سامان، چھکڑا، گھوڑے جنگل کے پار صاف ستھرے راستے پر پہنچا دیے۔ اس کے بعد وہ سب غائب ہو گئے۔ ان کے غائب ہوتے ہی جنگل میں جگہ جگہ آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور پھر ایسی آوازیں آئیں جیسے بہت سے لوگ قہقہے لگا رہے ہوں۔

سوداگر نے اس علاقے سے نکلنے میں ہی خیریت سمجھی اور چھکڑے کو تیز تیز ہانکتا ہُوا بہت دور نکل گیا۔ یہاں اس نے ایک کھلے میدان میں ڈیرا ڈال دیا تاکہ آرام کر سکے۔ صبح اٹھا تو موسم صاف تھا۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ وہ گھر کی طرف چل دیا۔

چند دن کے سفر کے بعد، جس میں اور کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا، سوداگر اپنے شہر کراکو کے باہر پہنچ گیا۔ جب وہ گھر کے پاس پہنچا تو اس کی بیوی بھاگی ہوئی آئی اور اپنے شوہر کو بچے کی پیدائش کی مبارک دی جو اس کی غیر حاضری میں پیدا ہوا تھا۔ سوداگر خوشی سے پھولا نہ سمایا اور بچے کو سینے سے لگا لیا۔

اب جو اُس نے بیوی کو سفر کے حالات سنائے اور اُس معاہدے کا خیال آیا جو وہ جنگل میں چھلاوے سے کر آیا تھا تو اس پر بجلی گر پڑی اور اس نے اپنا سر پیٹ لیا۔ اب اسے احساس ہوا کہ وہ انجانے میں اپنے معصوم بچے کا سودا کر بیٹھا ہے۔ جب اُس کی بیوی نے یہ سنا کہ اس بچے کو چھلاوا لے جائے گا تو اسے اتنا غم ہوا کہ اس نے اپنے بال نوچ ڈالے۔ وقت گزرتا گیا۔ اس دوران میں اور تو کچھ نہ ہو البتہ جب کبھی وہ بچے کو گھمانے پھرانے کے لیے باہر جانے کا ارادہ کرتے تو ایک دم بادل گھر آتے، بارش ہونے لگتی، بجلی کڑکنے لگتی اور وہ گھبرا کر بچّے کو واپس گھر لے آتے۔

بچہ بہت خوب صورت اور صحت مند تھا۔ اس کے ساتھ ہی ذہین بھی تھا اور درس گاہ کے امتحان میں ہمیشہ اوّل آتا تھا۔ اسے دیکھ کر کسی کو یقین نہ آتا تھا کہ اس پر کسی چھلاوے کا سایہ ہے۔ ماں باپ نے اس کا نام نکولس رکھا تھا۔

جب نکولس جوان ہوا تو اُسے احساس ہوا کہ ماں باپ ہر وقت چُپ چُپ سے رہتے ہیں۔ ہنسنا تو بڑی بات ہے، کبھی مسکراتے بھی نہیں۔ آخر اس نے ایک دن اپنے باپ سے پوچھا: ”ابّا جان، میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے آپ کو اور امّی کو کبھی ہنستے مسکراتے نہیں دیکھا۔ کیا بات ہے؟ آپ ہنستے کیوں نہیں ؟ آخر آپ کو کیا غم ہے ؟“

باپ اپنے بیٹے کو کچھ بتانا نہ چاہتا تھا۔ اس نے ہوں ہاں کر کے اُسے ٹالنا چاہا تو وہ بولا:
” جب کبھی میں جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے۔ کبھی آگے سے گزرتا ہے کبھی پیچھے سے۔ کبھی درختوں سے آواز آتی ہے، نکولس، تمہارا پڑھنا لکھنا سب بیکار ہے تمہیں تو آخر کار وہی کچھ کرنا ہے جو میں تمہیں سکھاؤں گا۔“

یہ سُن کر اس کا باپ رونے لگا۔ جب ذرا طبیعت سنبھلی تو بولا ”بیٹے میں وہ بدنصیب ہوں جس نے تمہاری زندگی کے راستوں میں کانٹے بو دیے ہیں۔ تم ابھی بچّے ہی تھے کہ میں نے انجانے میں تمہارا سودا ایک چھلاوے سے کر لیا تھا۔“ یہ کہہ کر اس نے اُس رات والا تمام قصّہ اُسے کہہ سنایا۔ اس کے بعد پھر رونے لگا۔

بیٹے سے باپ کا رونا دیکھا نہ گیا۔ وہ بولا: ”ابّا جان آپ بالکل نہ گھبرائیں۔ میں نے جنگلوں میں گھوم پھر کر بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ میں اس چھلاوے سے وہ کاغذ جس پر آپ نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے، چھین کر لے آؤں گا۔ آپ اور امی اپنا دل خراب نہ کریں۔ خوش رہیں۔“
نکولس نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کرنے کے لیے اپنے والدین کو خدا حافظ کہہ کے گاؤں سے چلا گیا۔ ابھی زیاره دور نہیں گیا تھا کہ اُسے ایک ایسا بوڑھا ملا جس کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے اور چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔

نکولس نے سلام کیا تو بوڑھے نے پُوچھا: ”اچھّے بیٹے، کہاں جا رہے ہو؟“

نکولس بولا: ”میں اُس چھلاوے کی تلاش میں نکلا ہوں جس نے میرے باپ کو دھوکا دے کر اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اُس سے ایک کاغذ پر دستخط کروا لیے تھے۔“

”تو ایسا کرو۔۔۔“ بوڑها بولا۔ ” اسی راستے پر چلتے جاؤ۔ جب سُورج چھپ جائے تو سب سے پہلی جو جان دار چیز نظر آئے، اُسی کے پیچھے پیچھے چل دینا۔ تمہارے من کی مراد پوری ہو گی۔“

نکولس اسی راستے پر چلتا گیا۔ جب شام ہوئی اور سورج ڈوبنے لگا تو بڑا پریشان ہوا کہ اب کِدھر کو جائے؟ ابھی تھوڑا سا اُجالا باقی تھا کہ ایک بھورے رنگ کی چھوٹی سی چوہیا اچانک کہیں سے نکلی اور نکولس کے آگے آگے بھاگنے لگی۔ نکولس کو بوڑھے کی بات یاد آ گئی۔ وہ چوہیا کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب بالکل اندھیرا ہو گیا تو نکولس نے سوچا کہ اب آرام کرنا چاہیے۔ وہ ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ اس نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر چوہیا بھی رُک گئی ہے۔ رات کو پہلو بدلتے ہوئے نکولس کی آنکھ کھلتی تو اسے دو موتی سے چمکتے نظر آتے۔ یہ چوہیا کی آنکھیں تھیں جو لگاتار نکولس کو گھور رہی تھیں۔

اب ہوتا یہ کہ اگلی صبح کو نکولس اس چوہیا کے پیچھے چلتا اور وہ آگے اور اسی طرح وہ ہر شام کو کسی جگہ رک جاتے تھے۔ نکولس روٹی کھاتا تو اس کے ذرے زمین پر گر جاتے۔ وہ چوہیا کھا لیتی۔ وہ کبھی کبھی آنکھوں سے اوچھل بھی ہو جاتی ۔ لیکن جب بھی نکولس راستہ بھول جاتا اور سوچنے لگتا کہ اب کِس طرف جانا ہے تو چوہیا فوراً بھاگتی ہوئی آ جاتی۔
اب راستہ اونچا ہوگیا تھا۔ اس کے دونوں طرف اونچی نیچی پہاڑیاں، ٹیلے اور چٹانیں تھیں۔ سبزے کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ بڑی خوف ناک جگہ تھی۔ چرند، پرند، اِنسان کوئی بھی جاندار نظر نہ آتا تھا۔ نیچے لوگوں نے اسے بتایا تھا کہ اُوپر پہنچو تو میتھیو کے غار سے بچ کے رہنا۔ اس کے دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا تھا کہ میتھیو ایک بدمعاش ہے اور اس پہاڑی پر رہتا ہے اور لوگوں کو جان سے مار ڈالتا ہے۔ چوہیا نکولس کو راستہ دکھا رہی تھی اور نکولس تھک ہار کر آرام کرنے کی سوچ رہا تھا کہ دُور ایک ٹمٹاتی ہوئی روشنی نظر آئی۔ وہ اُسی سمت چل دیا۔ یہ راستہ چٹانوں کے اندر ایک غار تک جاتا تھا۔ غار کے باہر دروازہ تھا۔

نکولس نے دروازے پر دستک دی۔ کافی دیر بعد ایک بڑھیا باہر نکلی، جس کی کمر جھکی ہوئی تھی۔ نکولس نے جھانک کر اندر دیکھا تو اسے لکڑیاں جلتی ہوئی نظر آئیں۔

نکولس نے بڑھیا کو سلام کیا تو وہ بولی: ”لڑکے یہاں سے فوراً بھاگ جاؤ، ورنہ تمہاری جان کی خیر نہیں۔ میرا ظالم بیٹا میتھیو واپس آنے والا ہے۔ وہ اپنے کوڑے سے تمہاری چمڑی ادھیڑ کر رکھ دے گا۔ تم ابھی نوجوان ہو اور اچھے گھرانے کے نظر آتے ہو۔ جاؤ، جلدی کرو۔ یہاں سے بھاگ جاؤ۔“

”اچھی امّاں“ نکولس بولا: ”میں اتنا تھکا ہوا ہوں کہ ایک قدم بھی نہیں اُٹھا سکتا۔ آپ مجھے یہاں رات گزارنے کی اجازت دے دیں۔ آگے جو میری قسمت۔“

بڑھیا نے نکولس کو لکڑیوں کے ڈھیر کے نیچے چھپا دیا۔ آدھی رات کے قریب میتھیو واپس آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں سیب کے درخت کا کوڑا تھا۔ غار کے اندر داخل ہوتے ہی اُس نے ناک اُوپر کر کے کچھ سونگھا اور پھر گرج کر بولا: ” بڑھیا! مجھے انسانی جسم کی بُو آ رہی ہے۔ بتا، کہاں چھپا رکھا ہے تُو نے اُس کو؟“

بڑھیا نے بہت کوشش کی لیکن میتھیو کو ٹال نہ سکی اور جب میتھیو نے خود ہی تلاش کرنا شروع کر دیا تو بڑھیا نے یہی مناسب سمجھا کہ اس کو سب کچھ بتا دے۔ اس نے میتھیو کو بتایا کہ کِس طرح ایک نوجوان لڑکا آیا تھا اور اس نے اُسے پناہ دی ہے۔ یہ سنتے ہی نکولس لکڑیوں کے نیچے سے نکل آیا۔ میتھیو نے اُس کی طرف گھور کر دیکھا اور گرج کر بولا: ”کون ہو تم ؟ کیا لینے آئے ہو یہاں؟“

نکولس نے ساری بات کہہ سنائی تو میتھیو نے کہا: ” میں زندگی میں پہلی بار رحم کھا رہا ہوں، اور تمہیں ایک شرط پر زندہ چھوڑتا ہوں۔ جس راستے پر تم جا رہے ہو یہ تمہیں سیدھا اُسی چھلاوے کے علاقے میں لے جائے گا جس کی تلاش میں نکلے ہو۔ میں نے بھی اپنی نوجوانی میں اُس سے ایک معاہدہ کیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ تمہارے والد نے یہ معاہدہ انجانے میں کیا تھا، لیکن میں نے جان بوجھ کر کیا تھا۔ اب جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، میری پریشانی بڑھتی جارہی ہے کہ خدا جانے وہ کس دن مجھے لینے آجائے۔ تمہیں اس شرط پر زندہ چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ تو واپسی میں ادھر سے ہو کر جانا اور مجھے بتانا کہ میرے متعلق چھاوے کے کیا ارادے ہیں۔“

نکولس نے میتھیو کی شرط مان لی۔ پھر وہ آرام سے سو گیا۔ صبح اٹھا تو بڑھیا نے اس کا تھیلا کھانے کی چیزوں سے بھر دیا اور وہ پھر سفر پر روانہ ہوگیا۔ چوہیا اسی طرح اُس کی راہ نمائی کر رہی تھی۔

اب راستہ اور بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیاں کہیں اُوپر کو جاتیں اور کہیں ڈھلان کی صورت میں نیچے کو۔ ارد گرد کی پہاڑیوں پر برف جمی ہوئی تھی۔ برف کے تودے پھسل پھسل کر گرتے تو نکولس بڑی مشکل سے جان بچاتا۔ وہ اِس سرد پہاڑی علاتے سے گزر گیا تو آگے گرم علاقہ شروع ہو گیا۔ یہاں اُس نے ابلتے پانی کا ایک سمندر دیکھا۔ مختلف ملکوں کے پرندے یہاں سردیاں گزارنے آئے ہوئے تھے۔ یہاں اُس نے ایک آنکھ والے آدم خوروں کو بھی دیکھا جن کے پیر بیلچوں جیسے تھے۔

نکولس یہ بات سمجھ چکا تھا کہ کوئی خاص طاقت اسے اِن سب مصیبتوں سے بچائے لیے جارہی ہے۔ یہاں ہوا میں جگہ جگہ آگ کے شعلے اُڑ رہے تھے اور بہت بری بُو پھیلی ہوئی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ ب وہ جنوں، پریوں اور چھلاوں کے علاقے میں آ گیا ہے۔ دلدلوں میں سے درختوں کے جلے ہوئے تنے اُچھل اُچھل کر باہر گر رہے تھے۔ جنگل سانپوں، بچھّوؤں سے بھرے پڑے تھے۔ سو سو سروں والے اژدھے دانت نکالے پھر رہے تھے۔ آخر کچھ آگے جا کر نکولس کو چھلاوے کا محل نظر گیا۔ یہاں زمین صاف اور ہموار تھی اور اس پر گھاس اُگلی ہوئی تھی۔

نکولس محل میں داخل ہو گیا۔ وہ جس طرف بھی جاتا دروازے خود بخود کھل جاتے۔ چوہیا اب بھی اُسے راستہ دکھا رہی تھی۔ جب وہ آخری دروازے میں سے ہو کر بڑے کمرے میں داخل ہوا تو اسے میز پر وہ کاغذ پڑا نظر آیا جس پر اس کے باپ نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے۔
اس نے جھپٹ کر کاغذ اٹھایا اور اِدھر ادھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ کمرے میں لمبی لمبی میزوں پر عمده عمده لذیذ کھانے چُنے ہوئے تھے۔ لیکن بھوکا ہونے کے باوجود اُس نے اُن کی طرف دھيان نہ دیا۔ اُس نے کاغذ جیب میں ڈالا تو اُسے وه وعده ياد آ گیا جو اُس نے میتھیو سے کیا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ اس وقت تک یہاں سے نہیں جانا چاہیے جب تک میں چھلاوے سے میتھیو کے بارے میں نہ پوچھ لوں۔

اس کا یہ سوچنا تھا کہ چوہیا کمرے میں ایک جگہ بار بار گھومنے لگی۔ نکولس نے اُس جگہ تہ خانہ دیکھا۔ نیچے سیڑھیاں جاتی تھیں۔ وہ نیچے اُتر گیا۔ یہاں گھپ اندھیرا تھا۔ پہلے پہل تو اُسے کچھ نظر نہ آیا۔ پھر اچانک ابلتے ہوئے تیل کی بُو آئی، جیسے پکوڑے تلنے والی کڑاہی سے آتی ہے۔ وہ کمرے کے دائیں کونے کی طرف گیا تو اس سے آگے ایک اور کمرا تھا اور اس میں روشنی ہو رہی تھی۔ نکولس وہاں گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک بہت بڑی کڑاہی میرا تیل کھول رہا ہے اور پاس ہی دیوار پر لکھا ہے:

”میتھیو کی قبر۔“

نکولس کو بہت دکھ ہوا اور وہ فوراً ہی محل سے باہر نکل آیا۔ اب چوہیا اس کے آگے آگے نہ تھی۔ بلکہ جوں ہی وہ محل سے نِکلا اس نے ایک اُلّو نے اس چوہیا کو پنجوں میں پکڑ رکھا تھا۔
واپسی میں اُسے سب کچھ بدلا ہوا نظر آیا۔ نہ وہ آدم خور، نہ سانپ، نہ دلدلیں اور نہ وہ پہاڑیاں۔ وہ بغیر کسی دقّت کے میتھیو کے غار تک پہنچ گیا۔ یہاں اب وہ بڑھیا نہ تھی۔ میتھیو رات کو آیا اور نکولس نے اُسے بتایا کہ چھلاوا اُس کو تیل میں تل کر کھانے کا انتظام کر رہا ہے تو اُس نے گھبرا کر کہا ”اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟“

نکولس بولا ”یہ جو تمہارا کوڑا ہے نا، یہ خونی کوڑا جس سے تُم نے نہ جانے کتنے لوگوں کو قتل کیا ہے، اِسے زمین میں بو دو۔ پھر اسے ایک چشمے کے پانی سے سینچو، لیکن چشمے سے پانی کِسی برتن میں نہیں، منھ میں بھر کر لانا ہے اور گھٹنوں کے بل چل کر آنا ہے۔ جب تک یہ کوڑا پھوٹ نہ نکلے اور اس میں شاخیں اور پتّے نکل نہ آئیں، اسے اسی طرح پانی دیتے رہنا۔ تمہاری مصیبت ٹل جائے گی۔“

میتھیو کو یہ ہدایت دے کر نکولس اپنے گھر چلا گیا۔ اس کے ماں باپ نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی کیوں کہ ان کا بیٹا بڑی بہادری کا کام کر کے آیا تھا۔ جب نکولس کے بوڑھے والدین فوت ہوگئے تو اس نے ان کی چھوڑی ہوئی تمام دولت غریبوں میں بانٹ دی اور خود دنیا چھوڑ کر جنگل میں چلا گیا۔ جنگل سے اُسے بچپن سے پیار تھا۔

ایک دن وہ ذرا دور نکل گیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ پھولوں کی خوش بُو پھیلی ہوئی تھی۔ نکولس کے ساتھ ایک گڈریا لڑکا بھی تھا۔ اس نے سیب کے ایک درخت کے نیچے گرے ہوئے سیب اکھٹے کر لیے۔ لیکن جُوں ہی اس نے درخت کی شاخ پر سے سیب توڑنا چاہا تو ایک آواز آئی: ”یہ پھل مت توڑو۔ یہ درخت تم نے نہیں بویا تھا۔“ گڈریا یہ سن کر خوف زدہ ہو گیا اور اس نے یہ بات نکولس کو بتائی۔ نکولس کو اپنی جوانی کا واقعہ یاد آگیا، بھاگ کر سیب کے درخت کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ درخت کا تنا دراصل خود میتھیو تھا اور اس کے بازو، داڑھی کے بال اور سر کے بال ٹہنیوں اور پتّوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔

نکولس کو دیکھتے ہیں وہ چلّایا: ”تم نے مجھے سیب کے درخت کی لکڑی کا کوڑا زمین میں دبانے کو کہا تھا۔ میں نے ایسا ہی کیا، اسے پانی دیتا رہا اور ایک دن خود ہی درخت بن گیا۔“
نکولس درخت کے تنے کے پاس بیٹھ گیا اور میتھیو نے اپنے تمام گناہوں کا ایک ایک کر کے اقرار کرنا شروع کر دیا۔

جب وہ اپنے کسی گناہ کی معافی مانگتا، درخت سے ایک سیب ٹوٹ کر گرتا اور لڑھک کر دور چلا جاتا۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ میتھیو نے اپنے تمام گناہوں کا اقرار کرلیا اور کہا کہ وہ اپنے کیے پر سخت نادم ہے تو نکولس نے دیکھا کہ درخت کے تمام سیب گرچکے ہیں اور وہ درخت خاک ہوچکا ہے۔ خاک کے اس ڈھیر میں سے ایک سفید کبوتر نکل کر آسمان کی طرف پرواز کرگیا اور ایک آواز آئی: ”اب میں آزاد ہوں۔ اب چھلاوا میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔“

(کتاب پولینڈ کی کہانیاں سے انتخاب، مترجم سیف الدّین حُسام)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں