سکھر: پشاور پولیس لائن کی مسجد میں پولیس وردی میں ملبوس خود کش بمبار کے پھٹنے کے واقعے کے بعد ملک بھر میں پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی وردیوں کی غیر قانونی فروخت کا سوال شدت سے اٹھا ہے۔
پشاور واقعے کے بعد یہ سوال پھر سے اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی وردیاں کیسے فروخت کی جاتی ہیں ان کا طریقہ کار کیا ہے اور یہ وردیاں جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں تک کیسے پہنچتی ہیں؟
ذرائع کے مطابق پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی وردیاں خریدنے کے لیے سرکار نے ایک طریقہ کار طے کر رکھا ہے، اہل کار سرکاری طور پر رجسٹرڈ دکان دار کو اپنا قومی شناختی کارڈ اور ڈیوٹی کارڈ دکھا کر وردی خرید سکتا ہے۔
اے آر وائی نیوز سکھر کے نمائندے سلیم سھتو کی رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی وردیوں میں استعمال ہونے والا یا اس سے ملتا جلتا کپڑا موجود ہے، جسے خرید کر کسی بھی باہر کے درزی سے وردی بنوائی جا سکتی ہے۔
تخریب کار کارروائیوں کے لیے پولیس کی وردی جگہ جگہ دستیاب
یہ امکان بھی موجود ہے کہ غیر قانونی طور پر وردیاں فروخت کرنے والے دکان دار جرائم پیشہ افراد کو وردیاں فراہم کرنے میں ملوث ہوں۔
جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کی رسائی ختم کرنے کے لیے جعلی وردی بنانے والے اور بغیر لائسنس پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی وردی فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے۔
گزشتہ روز اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں سابق آئی جی پولیس طاہر عالم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے دوران پابندی عائد کی گئی تھی کہ بغیر شناختی کارڈ کے کوئی شخص پولیس کی وردی فروخت نہیں کر سکتا لیکن اب کھلے عام اس پابندی کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
طاہر عالم کا کہنا تھا کہ جس طرح مسلح افواج نے اپنی وردی کی فراہمی کا ایک سسٹم بنا رکھا ہے ایسا ہی سسٹم پولیس وردی کے لیے بھی ہونا چاہیے۔