تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

انسانی تاریخ کا پہلا فنکار

اگر ہم کمہار کو انسانی تاریخ کا پہلا فنکار کہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ چکنی مٹی، پانی اور آگ سے تیار ہونے والے مٹی کے برتن فن پاروں سے کم نہیں۔ گذشتہ کئی ہزار برس سے کمہار تخلیق کے خوبصورت سفر پر گامزن ہے۔کمہار کےہنر مند ہاتھ خیال کو وجود میں ڈھالتے ہیں اور چکنی مٹی کو برتنوں کی شکل میں ڈھالتے ڈھالتے اپنی ساری زندگی اس کام کو دے گزارد دیتے ہیں ۔

گزرتے وقت کے ساتھ اس کے کام کی اہمیت کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں وسعت آئی ہے پہلے صرف نادی، گملے، گڑھے، ہانڈی، گلک اور صراحیاں بنائی جاتی تھی لیکن اب ان تمام چیزوں کے علاوہ گھریلو سجاوٹ کے لئے شو پیس، دلکش گملے اور کھلونےدیگر اشیاء بڑی تعداد میں تیار ہورہی ہیں۔ گرمی کے موسم میں بہت سے گھرانے صراحیوں اور مٹکوں کا شیریں اور ٹھنڈا پانی پی کر گزرے زمانوں کی یاد تازہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے کمہاروں کا روزگار بھی لگا رہتا ہے اور اب تومٹی سے برتن بنانے کا کام صنعت کی شکل اختیار کرگیاہے۔

کراچی کے علاقے نیوکراچی کا رہائشی ناصر اور اس کا خاندان تین نسلوں سے اس پیشے سے منسلک ہیں ‘ بہت ہی انہماک سے چکنی مٹی کے گولے پر کام کرتے ناصر کو دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کے ذہن میں پیدا ہونے والا خیال ایک مجسم تصویر بننے جارہی ہے۔

ناصر کا گھر بھی اس کے کارخانے یا کمہار واڑے سے متصل ہے‘ زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ناصر کا کہنا ہے کہ یہی کام ہی اس کی زندگی ہےصبح گھر سے کمہار واڑے میں آجاتے اور پھر شام تک کام میں ہی لگے رہتے ہیں ۔ہم لوگ بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں ، سارا کام ذہنی اور جسمانی مشقت کا ہے۔ مٹی کے برتن بنانے کے لیے پیروں سے چلنے والا چرخہ استعمال کیا جاتا ہے، ہم اس کام کے دوران کمپیوٹر یا کسی بڑی مشینری کو استعمال نہیں کرتے۔

ناصر کو حکومت سے شکوہ ہے کہ سرکاری سطح پر اس گھریلو صنعت کو مزید فروغ دینے کے لئے کوئی اقدمات نہیں کئے گئے‘ نہ ہی ان کو کام کو ایک فن سمجھ کر سرکاری سطح پر کبھی کوئی داد و تحسین کی گئی ہے‘ ہنر مند ہاتھوں اور ذہین آنکھوں والے ناصر کا کہنا ہے کہ اگرسستے قرضے ، بجلی اور پانی کی بلا تعطل فراہمی ہوجائے تو اس کے اس کام کو مزید فروغ دینے کے لئے اس کے ذہن میں کئی آئیڈیاز موجود ہیں لیکن پھر ناصر نے خود ہی افسردہ سی مسکراہت کے ساتھ کہا کہ ہمیں ہمارے کام پر کم از کم کوئی واہ واہ ہی کردے تو اچھا لگتا ہے ۔ہمارے کام کے حوالے سے مقابلے ہونے چا ہئے اور حکومتی سطح پر پاکستانی فن کے ان نمونوں کو دیگر ممالک میں نمائش کے لئے پیش کرنا چاہئے۔

خام مٹی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مٹی کے برتنوں کی قیمت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، کمہاروں نے شکوہ کرتے ہوئے کہاکہ انھیں ان کی محنت کاثمر نہیں ملتا ۔زیادہ تر کمہار مال آرڈر پر صرف تیار کرتے ہیں اور بازار میں خرید و فروخت کرنے والے تاجر ان سے مختلف چیزیں بنوا کر مارکیٹ میں بیچتے ہیں لیکن کمہار کو اس کی محنت کا اتنا صلہ نہیں ملتا جتنا اس ملنا چاہئے مارکیٹ سے تعلق رکھنے والے تاجر کمہاروں سے بہت کم قیمت میں مال خرید کر دگنی قیمت پر بیچ کر زیادہ منافع کماتے ہیں۔

مٹی کے برتنوں کے لیے زیادہ تر مٹی نوری آباد اور حب کے علاقے سے لائی جاتی ہے ۔گزشتہ چند سال کے دوران مٹی کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے‘ مٹی سے برتن اور دیگر اشیاءبنانے کے لئے ایک خاص قسم کی مٹی کو رات بھر پانی میں ملا لیا جاتا ہے اور اس کے بعد صبح کے وقت اس کے بڑے بڑے ڈھیر تیار کیے جاتے ہیں۔ ابتدامیں چکنی مٹی کے گولے تیار ہوتے ہیں جس کو برتن کی ابتدائی شکل میں ڈھالا جاتا ہے ‘ اور ان سارے مراحل کے ایک مرحلہ وہ بھی آتا ہے جب مٹی سے بنی سجاوٹ کی اشیاء، کو مزید دلکش بنانے کے لئے نقش و نگار سے مزین بھی کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی نقش و نگار کے ماہر ایک کمہار عارف کا کہنا ہے کہ ماضی میں بنائے جانے والی مٹی کی اشیاءسادہ ہوتی تھی لیکن اب چونکے زیادہ تر لوگ مٹی سے بنی ان اشیاء کو گھروں میں شوپیس کے طور پر رکھتے ہیں اس لئے ان برتنوں کو مزید دیدہ زیب بنانے کے لئے ان پر مختلف اقسام کی ڈیزائننگ بھی ضروری ہوگئی ہے۔ مٹی کی اشیاءتیار ہونے میں ایک دن لگتا ہے اور اس کے بعد ان اشیاءکو کم ازکم دو روز دھوپ میں سکھایا جاتا ہے اور آخر میں تین روز انہیں بھٹی میں پکایا جاتا ہے۔

مٹی کے برتنوں پر نقش و نگار بنانے کے ماہر عارف کا کہنا ہے کہ کمہار کا کام سیکھنے میں کئی برس لگ جاتے ہیں‘ ابتدائی دو سال تو صرف مٹی میں پانی ملا کر اسے تیار کرنا سیکھنا پڑتا ہے پھر ذہن میں پیدا ہوتے خیالوں کو چکنی مٹی میں ڈھالنے کا فن سیکھنا ایک طویل جدوجہد ہے‘ یہ کام سخت ذہنی اور جسمانی مشقت کا متقاضی ہے اس لئے عام طور پر لوگ اس پیشے کی طرف نہیں آتے صرف شوق یا خاندانی طور پر اس کام کو اپنانے والے ہی اس کام کو اپنا تے ہیں۔

خیال رہے کہ کوزہ گری کا یہ فن کوئی آج یا چند صدی قدیم نہیں بلکہ ہمارے خطے کی قدیم ترین صنعت ہے‘ آج سے پانچ ہزار سال قبل جب دنیا کے دیگر علاقوں میں لوگ ابھی غاروں میں رہ رہے تھے ‘ موہن جو دڑو اور ہڑپہ کے مکین پکی مٹی کے برتن استعمال کیا کرتے تھے اور ان پر ایسے نادر و نایاب رنگوں سے سجاوت کرتے تھے کہ آج پانچ ہزار سال گزرنے کے بعد ‘ جب کہ یہ نوادرات کئی ہزار سال مٹی میں دفن بھی رہے‘ سجاوٹی رنگ پھیکے نہیں پڑے ہیں ۔ آج بھی کراچی سے لے کر ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے میوزیم میں رکھے یہ آثارِ قدیمہ ہمارے پر شکوہ ماضی کی گواہی دیتے ہیں‘ اور ناصر جیسے لوگ اسی شاندار ماضی کے امین ہیں۔

کراچی میں تیار کیے جانے والے مٹی کے کولر، گملے، مٹکے، آرائشی گلدان وغیرہ ایکسپورٹ بھی کیے جاتے ہیں ‘ اور اکثر اوقات دیگر ممالک سے لوگ آکر یہاں اس فن کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے ملکوں میں واپس جاکر اس سے خطیر رقم کماتے ہیں۔ اگر حکومت اس فن کی سرپرستی بحیثیت ثقافتی ورثے کے کرنا شروع کردے اور باقاعدہ ترقی یافتہ ممالک سے اس سلسلے میں معاہدے کرے تو ہمارے یہ کمہار اور کوزہ گر اپنی اس محنت اور تاریخی امانت کا مناسب صلہ پاسکتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -