ہفتہ, ستمبر 21, 2024
اشتہار

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جو 22 صفحات پر مشتمل ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریرہ کردہ فیصلے کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کسی کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوتے، آئین پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔

تحریری فیصلے کے مطابق اداروں کے درمیان باہمی احترام کے آئینی تقاضے ہیں، باہمی احترام کا تقاضا ہے سپریم کورٹ پارلیمان کی رائے کو اپنی رائے سے تبدیل نہ کرے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین اور عدلیہ کی آزادی کے منافی نہیں بلکہ ایکٹ سے شفافیت اور انصاف تک رسائی میں مدد ملے گی۔

- Advertisement -

اس میں مزید لکھا گیا کہ چیف جسٹس اور دو سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی سے عدلیہ زیادہ بااختیار ہوگی، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق دیا گیا، فیصلے کی خلاف اپیل کا حق دنیا بھر کے قوانین کے ساتھ  شرعی تقاضا بھی ہے۔

فیصلے کے مطابق درخواست گزاروں کی جانب سے اٹھائے دیگر نکات پر غور کرنا اکیڈیمک بحث ہوگی، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بننے سے پہلے ہی عدالت نے حکم امتناع جاری کر دیا، آئین سپریم کورٹ کو لامحدود اختیارات نہیں دیتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئین چیف جسٹس کو اکیلے ہی فیصلے کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیتا، چیف جسٹس کا ماسٹر آف روسٹرز ہونا آئین میں کہیں نہیں لکھا، جمہوریت کی بنیاد پر قائم آئین میں ماسٹر کا لفظ تضحیک آمیز ہے۔

اس میں لکھا گیا کہ ماسٹر کا لفظ غلامی کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو آئین اور شرعی اصولوں کے خلاف ہے، شرعی اصول بھی ایک سے زائد افراد کے درمیان معاملے میں مشاورت لازمی قرار دیتے ہیں، اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنا دراصل دوسروں کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے۔

تحریری فیصلے کے مطابق عدلیہ کی ساکھ متاثر ہونے سے ملک اور عوام کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے مگر خود سپریم کورٹ پر نہیں، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کو چھوٹے بینچز کے فیصلوں پر فوقیت دی جاتی ہے، آئینی روایات کو قانون کی طرز پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔

فیصلے کے مطابق آرٹیکل 184 تھری کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کی قانونی شق پر 6 ججز نے اختلاف کیا، 9-6 کی اکثریت سے قانون بننے کے بعد اپیل کا حق آئینی قرار دے دیا، اپیل کے حق میں مخالفت کرنے والوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اپیل کا اطلاق ماضی کی شق کو کالعدم قرار دے دیا، اپیل کا حق ماضی سے دینے کی قانونی شق کی مخالفت 8 ججز نے کی، اپیل کا حق ماضی سے حمایت کرنے والوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود شامل ہیں۔

اپیل کا حق ماضی سے حمایت کرنے والوں میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔ اپیل کا حق ماضی سے حمایت کرنے والوں میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مسرت حلالی بھی شامل ہیں۔ اپیل کا حق ماضی سے اختلاف کرنے والوں میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر نقوی شامل ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مظہر علی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس احسن اظہر رضوی بھی شامل ہیں۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں