ملک میں آئینی عدالت کے قیام کا مطالبہ سامنے آ گیا ہے اور یہ مطالبہ صدر سپریم کورٹ بار رؤف عطا کی جانب سے کیا گیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق صدر سپریم کورٹ بار رؤف عطا کی جانب سے جاری بیان میں ملک میں آئینی عدالت کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی عدالت کا قیام وقت کا تقاضہ ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار نے کہا ہے کہ مختلف حلقوں سے سن رہے ہیں کہ 27 ویں آئینی ترمیم ہو رہی ہے۔ اگر ایسا ہے کہ ترمیم کا مسودہ تیار کرنے سے قبل وکلا تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے اور ایسی ترمیم نہ کی جائے جو عدلیہ کی آزادی سے متصادم ہو۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مالی مقدمات، ٹیکس کیسز کے لیے ہائیکورٹس کو کورٹ آف اپیل قرار دیا جائے۔ اس فیصلے سے سپریم کورٹ میں مقدمات کا بوجھ کم ہوگا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا مطالبہ اس سے قبل بھی کئی بار سامنے آ چکا ہے۔ گزشتہ سال 26 ویں آئینی ترمیم کے وقت ایک بار پھر اس کی گونج سنائی دی۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے حق میں جب کہ اپوزیشن اور بعض قانون دان اس کے خلاف تھے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وفاقی آئینی عدالت کے حوالے سے ایک تقریب میں کہا تھا کہ آئینی عدالت 18 سال سے زیر بحث ہے۔ 2006 میں عاصمہ جہانگیر نے ایک آزاد آئینی عدالت بنانے کی تجویز دی تھی۔ ہمارے ذہن میں خاکہ ہے کہ 7 یا 8 ججز کی آئینی عدالت ہو۔
جوڈیشل کمیشن نے 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دے دیا
تاہم نئی آئینی عدالت کے قیام کے بجائے گزشتہ سال 5 نومبر کو سپریم کورٹ میں ایک 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دے دیا گیا۔ اس بینچ کا سربراہ سینئر ترین جج جسٹس امین الدین کو مقرر کیا گیا۔ بعد ازاں 21 دسمبر 2024 کو جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کو 6 ماہ کے لیے توسیع دے دی۔