لاہور: پنجاب حکومت نے صوبے میں جنس کی بنیاد پر اسقاط حمل کے بڑھتے واقعات روکنے کے لیے قانون سازی کافیصلہ کر لیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے اسقاط حمل کے واقعات پر قابو پانے کے لیے غور شروع کر دیا ہے، اس سلسلے میں صوبائی سطح پر قانون سازی کی جائے گی۔
[bs-quote quote=”جینڈر امبیلنس کا خطرہ لا حق ہو سکتا ہے، جس سے نمٹنے کے پیشِ نظر قانون سازی ضروری ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”وزیرِ صحت”][/bs-quote]
قانون سازی کے مطابق پیدائش سے پہلے والدین کو بچے کی جنس بتانے پر پابندی عائد ہوگی۔
صوبائی وزیرِ صحت یاسمین راشد نے اس سلسلے میں منعقدہ ایک اجلاس میں کہا کہ اب 3 ماہ سے بھی پہلے بچے کی جنس کا تعین ممکن ہو چکا ہے۔
یاسمین راشد نے کہا کہ طب کے شعبے میں اس ایڈوانسمنٹ کے باعث بیٹوں کے خواہش مند والدین بیٹی کامعلوم ہوتے ہی اسقاط حمل کی کوشش کرتے ہیں۔
صوبائی وزیرِ صحت کا کہنا تھا کہ اس طرزِ عمل سے جینڈر امبیلنس کا خطرہ لا حق ہو سکتا ہے، جس سے نمٹنے کے پیشِ نظر قانون سازی ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صحت کی بہترین سہولیات کیلئے پبلک ہیلتھ مینجمنٹ اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ
صوبائی وزیرِ صحت یاسمین راشد نے مزید بتایا کہ پنجاب میں اس سلسلے میں قانون سازی کے لیے بل لانے پر کام شروع کر دیا گیا ہے، قانون بننے کے بعد والدین کو بچے کی جنس بتانا قانونی طور پر جرم ہو جائے گا۔
خیال رہے کہ قانون لانے کا مقصد بچی ہونے کی صورت میں اسقاط حمل کرانے کے قابلِ مذمت رجحان کا خاتمہ ہے، اسلام خواتین کو برابر کے حقوق دیتا ہے، یہ قانون صنفی امتیاز کے خاتمے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔