تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

روسی تیل پر قیمت کی حد، ماسکو نے پہلے ہی سے تیار ہونے کا انکشاف کر دیا

ماسکو: یورپی یونین کے بعد جی سیون ممالک اور آسٹریلیا نے بھی روسی تیل پر پرائس کیپ کا فیصلہ کر لیا ہے۔

روسی میڈیا کے مطابق ماسکو نے پرائس کیپ کے تحت تیل کی فروخت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس اقدام کی پابندی نہیں کرے گا، چاہے اسے تیل کی پیداوار میں کٹوتی ہی کرنی پڑے۔

ترجمان کریملن دیمیتری پیسکوف نے صورت حال کے لیے پہلے سے تیار ہونے کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ اس فیصلے کو ہم قبول نہیں کرتے اور اس کے خلاف ہماری تیاری مکمل ہے، جلد ہی اقدام اٹھائیں گے۔ ماسکو نے کہا کہ قیمتوں کی حد میں اضافے والے یورپی ممالک کو تیل کی سپلائی کی معطلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ روس کی خبر رساں ایجنسی ٹاس نے ہفتے کے روز کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ اس سال سے یورپ روسی تیل کے بغیر گزارہ کرے گا۔

پرائس کیپ کے حوالے سے مزید تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں، روسی تیل 60 ڈالر فی بیرل سے زائد فروخت پر شپمنٹ کی انشورنس اور فنانس پر پابندی ہوگی۔

گروپ آف سیون (جی 7) کی طرف سے مقرر کردہ قیمت کی حد کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کی طرف سے روسی سمندری تیل پر مکمل پابندی پیر کے روز سے عمل میں آ گئی ہے، یہ دونوں بلاک یوکرین میں جنگ کی مالی اعانت جاری رکھنے کے لیے کریملن کی صلاحیت کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

دوسری طرف روس نے خبردار کیا ہے کہ مغرب کا یہ اقدام توانائی کی عالمی منڈیوں کو عدم استحکام سے دوچار کر دے گا، روسی تیل پر پرائس کیپ کے مغرب کے اقدام سے سپلائی میں کمی ہو جائے گی۔

الجزیرہ کے مطابق جمعہ کو G7، EU اور آسٹریلیا نے روسی تیل کی قیمت کی حد 60 ڈالر فی بیرل مقرر کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ مئی 2022 میں، یورپی یونین نے روسی سمندری خام تیل پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔ جب کہ 27 رکنی بلاک نے یہ بھی کہا ہے کہ ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر پابندی 5 فروری 2023 سے نافذ ہوگی۔

یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل کے مطابق، یہ پابندی یورپی یونین میں آنے والے روسی تیل کی دو تہائی سے زیادہ درآمدات پر محیط ہے۔ انھوں نے اس پابندی کو یورپی یونین کے اتحاد کی علامت قرار دیا اور ایک ٹویٹ میں کہا کہ اس سے روس پر جنگ ختم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ پڑے گا۔

یورپی یونین کی جانب سے تیل کی پابندی یورپی یونین کے آپریٹرز پر بھی لاگو ہوتی ہے، جو دنیا بھر میں روسی خام تیل لے جانے والے جہازوں کا بیمہ اور مالی اعانت کرتے ہیں، لیکن اس کا اطلاق پائپ لائنوں کے ذریعے بلاک میں آنے والی روسی تیل کی درآمدات پر نہیں ہوتا۔ 1964 میں کام شروع کرنے والی تیل کی Druzhba پائپ لائن سے جرمنی، پولینڈ، ہنگری، سلوواکیہ، جمہوریہ چیک اور آسٹریا سمیت کئی وسطی اور مشرقی یورپی ممالک کو روسی تیل کی سپلائی ہو رہی ہے۔

جرمنی، پولینڈ اور آسٹریا نے اس سال کے آخر تک روسی تیل کی درآمدات کو مکمل طور پر ختم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اس پابندی کی حمایت کی ہے۔ لیکن ہنگری، جمہوریہ چیک، سلوواکیہ اور بلغاریہ اب بھی روسی پائپ لائن کے تیل پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں اور انھیں اس وقت تک درآمدات جاری رکھنے کی اجازت ہوگی جب تک کہ وہ متبادل سپلائی کا بندوبست نہیں کر لیتے۔ تاہم، یورپی کمیشن کے مطابق، پائپ لائن کی ان درآمدات کو دیگر یورپی یونین سے منسلک ممالک یا غیر یورپی یونین ممالک کو دوبارہ فروخت نہیں کیا جا سکتا۔

Comments

- Advertisement -