اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان کے انتخاب کے نتائج کا اعلان کردیا گیا ، تحریک انصاف ک سربراہ عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے ووٹنگ میں 176 ووٹ حاصل کیے جبکہ مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف نے 96 ووٹ حاصل کیے۔
لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ
شام 5:38: عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے وزیراعظم متخب ہوگئے
شام 5:30: وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل ختم ہوگیا، ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
شام 5:07: شہباز شریف کی آخری لمحات میں پیپلز پارٹی کو منانے کی کوشش، بلاول بھٹو کی نشست پر گئے اور ووٹنگ میں حصہ لینے کی درخواست کی، لیگی رہنما بھی ساتھ موجود تھے، پیپلز پارٹی اپنے فیصلے پر برقرار
شام 4:57: ممبران رجسٹر میں اپنے نام کا اندراج کرکے دائیں اور بائیں پولنگ کے لیے مختص کی گئی لابیوں میں جارہے ہیں ، دائیں ہاتھ والی لابی میں عمران خان کے حق میں ووٹنگ ہوگی اور بائیں ہاتھ کی لابی میں شہباز شریف کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں گے۔
پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے ارکانِ اسمبلی پولنگ کے عمل میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔
شام 4:51: اسپیکر نے وزارتِ عظمیٰ کے امیداروں کےنام کا اعلان کیا، تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان اور مسلم لیگ ن کی جانب سے شہباز شریف میدان میں ہیں، ایوان کو ووٹنگ کے لیے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
شام 4:41 : اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کے ارکان کو وزیراعظم کے انتخاب کے لیے رائے دہی کے لیے مروجہ طریقہ کار سے آگاہ کیا، اور اس کے اصول و ضوابط بیان کیے۔
شام 4:35: اسپیکر اسد قیصر نے گیلری میں موجود مہمانوں سے گزارش کی کہ نعرے بازی سے گریز کیا جائے ، اور گیلری کے راستے خالی کیے جائیں۔
شام 4:26: اسپیکر اسد قیصر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ، ان کے آتے ہی تلاوت سے اجلاس کا آغاز ہوگیا
سہ پہر3:39: تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف، اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے
پاکستان کے وزرائے اعظم
قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے رفیق نوابزادہ لیاقت علی خان کو پاکستان کا پہلا وزیر اعظم نامزد کیا جنہوں نے 15اگست 1947 ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ انہیں 16اکتوبر1951ء کو اس وقت کے کمپنی باغ اور آج کے لیاقت باغ راولپنڈی میں قاتل سید اکبرعلی نے گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔
ان کے بعد پاکستان کا دوسرا وزراعظم خواجہ ناظم ا لدین کو بنایا گیا جو اس وقت قائد کی وفات 1948ء کے باعث ان کے خالی ہونے والی نشست پر 14ستمبر1948ء کو بحثیت گورنر جنرل پاکستان مقرر ہوئے او رنوبزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد 19 اکتوبر1951ء کو ملک کے دوسرے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ ان کی نرم دلی کے باعث حکومت کو بہت سے مشکل مسائل سے دوچار ہونا پڑا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گورنر جنرل غلام محمد نے 17اپریل1953ء کو ان کے عہدے سے بر طرف کر دیا۔
ان کی جگہ محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم مقرر کر دیا جنہوں نے 18اپریل1953ء کو حلف اٹھایا۔ ان کا تمام عرصہ گورنر جنرل کے زیر سایہ اطاعت میں گزرا۔ وہ ایک ایسی حکومت تھی جس میں کوئی اسمبلی ہی نہیں تھی۔ ان کے دور میں ہی نئی دستور ساز اسمبلی تشکیل پائی۔ اسمبلی منتحب ہونے پر وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نئی کابینہ بنانے میں ناکام ہونے پر 11اگست1955ء میں مجبوراً مستعفی ہو گئے۔
پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر چوہدری محمد علی نے 11اگست کو ہی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور 12ستمبر1956ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ ان کے ہی دور میں مارچ 1956ء کو پاکستان کا پہلا آئین بنایا گیا۔ انہوں نے حکومت سے اختلافات کے باعث 8ستمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
ان کے بعد پانچویں وزیر اعظم کی حیثیت سے سید حسین شہید سہر وردی کو گورنر جنرل اسکندر مرزا نے نامزد کیا۔ انہوں نے 12ستمبر1956ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا لیکن گورنر جنرل اسکندر مرزا سے اختلافات اور ان کی بے ایمانی کے باعث کیونکہ اس نے 24اکتوبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی بجائے اسمبلی توڑ دی اور یوں ان کا دور ختم ہوا۔
پاکستان کے چھٹے وزیر اعظم کے طور پر اسماعیل ابراہیم چندریگر نے 18اکتوبر کو حلف اٹھایا وہ حکومتی جماعت سے اختلاف کے باعث گیارہ دسمبر1957 ء کو از خود مستعفی ہو گئے۔
ان کے بعد 16 دسمبر1957 ء کو ملک فیروز خان نون نے ساتویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا۔ اسکند ر مرزا سے اختلافات شدید ہونے کے باعث ملک میں پارلیمانی نظام کو ختم کرتے ہوئے ملک فیروز خان نون کی حکومت ختم کرکے 8 اکتوبر کو ملک میں مارشل لانافذ کر دیا اور 1956 ء کا آئین منسوخ کر دیا۔ اس طرح وہ پاکستان کے پہلے پارلیمانی دور کے آخری وزیر اعظم بھی تھے۔
آٹھ اکتوبر کو جنرل محمد ایوب خان جو اس وقت افواج پاکستان کے سربراہ تھے نے چیف ماشل لا ایڈمنسٹریٹر اور حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ سربراہ مملکت کے طور پر اسکندر مرزا کو برقرار رہنے دیا۔ 24اکتوبر کو اسکندر مرزا نے جنرل محمد ایوب خان کو با ضابطہ طور پر پاکستان کا آٹھواں وزیر اعظم نامزد کر دیا ان کا یہ عہدہ 2نومبر 1958تک برقرار رہا۔ 2نومبر1958ء کو اسکندر مرزا کو جبراً ملک بدر کر دیا گیا اور ایوب خان نے صدر مملکت کا عہدہ سنبھال لیا جو 25مارچ1969ء تک برقرار رہا۔ عوامی دباؤ اور احتجاج کے باعث انہوں نے مجبوراً عہدہ چھوڑ دیا۔ ان کی جگہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد یحیٰ خان نے لے لی اور نورالامین کو7دسمبر1971ء کو پاکستان کا نواں وزیر اعظم نامزد کیا گیا۔
قومی اسمبلی کے انتخابات دسمبر1970 میں مکمل ہو چکے تھے، اس کے باوجود جنرل یحیےٰ خان نے اقتدار منتقل نہیں کیا۔ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ جس کے باعث 16دسمبر1971کو پاکستان دو لخت ہو گیا۔ اس طرح نورالامین 7دسمبر سے 22دسمبر تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ صرف چودہ دن ان کی وزارت قائم رہ سکی۔
اس کے بعد پاکستان کے دسویں وزیراعظم کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے 21دسمبر کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا اور ان کے ہی نامزد کردہ سربراہ افواج پاکستان ضیاء الحق 4اور 5جولائی1977ء کی درمیانی شب بھٹو حکومت کو ختم کرکے ملک میں ایک بار پھر ماشل لا نا فذ کر دیا اور نوے دن میں الیکشن کرانے کے اعلان کے باوجود ضیاالحق نے انتخابات مقررہ وقت پر نہ کرائے ۔
سنہ 1985 ء میں غیر جماعتی الیکشن کرائے گئے جس کے بعد رکن قومی اسمبلی محمد خان جونیجو سے30مارچ1985ء کو بحثیت وزیر اعظم حلف لیا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے29مارچ1988ء کو نہ صرف محمد خان جونیجو کو برطرف کر دیا بلکہ تمام اسمبلیاں بھی توڑ دیں۔
پاکستان کے بارہویں وزیر اعظم کی حیثیت سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2دسمبر1988ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔6اگست 1990ء کواس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم بے نظیر پر بدعنوانی اور کرپشن کے شدید الزامات عائد کرکے نہ صرف انہیں بلکہ قومی و صوبائی اسمبلیاں بھی برخاست کر دیں۔
ان کے بعد میاں محمد نواز شریف نے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے باعث بطور وزیر اعظم2نومبر 1990ء کو پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا جو ان سے صدر غلام اسحاق خان نے لیا۔ میاں محمد نواز شریف کا پہلا دور حکومت اسحاق خان سے اختلافات کے باعث ان کی برطرفی پر 17اپریل1993ء کو اختتام پذیر ہوا۔
سنہ 1993 انتخابات میں محترمہ بے نطیر بھٹو کے منتخب ہونے کے باعث19اکتوبر کو اقتدار محترمہ کو منتقل کر دیا۔ اس طرح بے نظیر بھٹو نے ایک بار پھر پاکستان کی 17 وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا لیکن خود ان کی پارٹی کے صدر فاروق احمد لغاری نے بد عنوانی اور کرپشن کے شدید الزامات لگا کر ان کی مدت پوری ہونے سے بہت پہلے انہیں اور ان کے ساتھ پارلیمنٹ کو بھی رخصت کر دیا ۔
سنہ 1997 میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو دوسری مدت کیلئے سونپ کر رخصت ہوئے لیکن اکتوبر1999 ء میں میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف میں ہونے والے اختلافات نے انہیں اقتدار سے محروم کر دیا اور انہیں جبری طور پر حکومت سے نکال دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے الیکشن کراکر پارلیمنٹ تشکیل دی۔
سنہ 2002 میں وزیراعظم ظفراﷲ جمالی کے نام وزارت عظمیٰ کا قرعہ فال نکلا تاہم جلد ہی مسلم لیگ کی قیادت سے اختلاف کے باعث انہیں ہٹا کرمسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے مختصر مدت کے لیے وزیراعظم کے طور پرحلف لیا ۔
ا سکے بعد شوکت عزیز نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا اور ساڑھے تین سال اقتدار میں رہنے اور اپنی مدت جو پارلیمنٹ سے مشروط تھی پوری ہونے پر رخصت ہوئے۔
سنہ 2208 کے انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی 25مارچ2008ء سے 2012ء تک آئینی وزیر اعظم رہے۔ ان کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں جون2012ء میں نااہل قرار دیا جس کے بعد وہ عہدے پر برقرار نہ رہے۔
گیلانی کی برطرفی سے اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوئیں اور ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بنے جو22جون2012ء سے2013ء تک اس عہدہ پر رہے۔
نواز شریف وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تین بار وزارت عظمیٰ کی کرسی حاصل کی تا ہم تینوں بار وہ اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔تیسری بار وہ 5جون 2013ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔سپریم کورٹ نے پانامہ لیک اسکینڈل کیس میں انہیں62اور63کے تحت 28جولائی کو نااہل قرار دیا۔
نواز شریف کی نا اہلی کے بعد قومی اسمبلی نے شاہد خاقان عباسی کو28ویں وزیراعظم کے طور پر یکم اگست2017ء کومنتخب کیا جو کہ اپنے عہدے کی مدت 31 مئی 2018 کو ختم کرکے رخصت ہوگئے۔
نگراں وزرائے اعظم
اس تمام عرصے میں حکومتوں کے خاتمے پر نگراں حکومتیں قائم ہوتی رہیں جن کی نگرانی کے لیے نگراں وزیر اعظم کا انتخاب کیا جاتا رہا ہے، اس عہدے پر سب سے پہلے غلام مصطفیٰ جتوئی فائز ہوئے ، اس کے بعد بلخ شیر مزاری، معین الدین قریشی، معراج خالد، محمد میاں سومرو، میر ہزار خان کھوسو، اور ناصر الملک بالترتیب فائز رہے۔
نگراں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کا کام صرف یہ ہوتا تھا کہ ایک حکومت سے دوسری حکومت تک انتقالِ اقتدار کے عرصے میں ملک کا نظم و نسق سنبھالے رکھا جائے اور بروقت انتخابات کا انعقاف ممکن بنایا جائے۔