جمعہ, جنوری 10, 2025
اشتہار

’’اووو۔۔۔۔۔، اوووو‘‘ ملک اور قوم کی ترقی کا زینہ!

اشتہار

حیرت انگیز

وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں نئے سال کے آغاز پر اڑان پاکستان لانچنگ پروگرام میں قوم کو اُڑنے کا نیا گُر سکھاتے ہوئے ’’اوووو، اوووو‘‘ کی آواز میں احتجاج کرنے کا پیغام دیا اور یہ پیغام اب اتنا پھیل رہا ہے کہ پوری قوم ہی اووو، اووو کر کے اس کو قومی بیانیہ بنانے میں مصروف ہو چکی ہے۔

شہباز شریف جنہوں نے خوش قسمتی سے دوسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے۔ وہ اس سے قبل تین بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور بلاشبہ اپنے صوبے کے عوام کی ’’اتنی خدمت‘‘ کی، کہ خود ہی خود کو ’’خادم اعلیٰ‘‘ کا خطاب دے ڈالا۔ اب جب سے یہ خیر سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں، تو انہوں نے خادم اعلیٰ کے ساتھ شاید خود کو ’’استاد قوم‘‘ سمجھنا شروع کر دیا ہے اور آئے دن پاکستانی قوم کو ترقی کرنے کے ایسے ایسے گُر سکھاتے ہیں، جس سے یہ بے چاری قوم پہلے نابلد تھی۔

وزیراعظم نے اڑان پاکستان پروگرام کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے قوم کو ترقی کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ ’’وہ جب جاپان گئے تو انہوں نے اووو، اووو کی آوازیں سنیں اور جب انہوں نے پوچھا تو پتہ چلا کہ فیکٹری کے لوگ احتجاج کر رہے ہیں، وہ کام نہیں روک رہے کیونکہ یہ ملک و قوم کا نقصان ہے، اس لیے وہ کام جاری رکھتے ہوئے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے زور دے کر کہا کہ قومیں ایسے ہی ترقی کرتی ہیں جب کہ ہمارے ہاں احتجاج کے نام اسلام آباد پر لشکر کشی کی جاتی ہے۔

- Advertisement -

شہباز شریف کا یہ بیان بظاہر ایک سیاسی بیانیہ لیے ہوئے تھا جنہوں نے اپنی بات کو دوسرے پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کا یہ مشورہ سننے کے بعد تقریب میں بیٹھے لوگوں کے لیے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہوگیا۔
خادم پاکستان کے سونے کے ترازو میں تولے جانے والے اس بیش قیمت لیکن مفت مشورے پر تو سمجھو قوم نے اسی دن سے عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاجروں نے تو کراچی میں گزشتہ روز اس کا ڈیمو بھی پیش کر دیا۔ ایک ٹرک ڈرائیور نے غیر قانونی چالان پر احتجاج کرتے ہوئے اووو، اووو کیا، بچے بڑے سب ہی اووو، اووو کر رہے ہیں، لیکن ترقی کا عمل کب شروع ہوتا ہے، یہ ہنوز سوالیہ نشان ہے؟

شہباز شریف جنہیں قوم کا درد، رات میں سکون کی نیند سونے نہیں دیتا۔ وہ علی الصبح اٹھ جاتے ہیں اور دن کے 24 میں سے ’’25‘‘ گھنٹے قوم کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے اگر قوم کو کامیابی کا گُر اور دنیا میں ترقی کرنے کا راز بتا دیا ہے تو اس میں ایسی کیا مضحکہ خیز بات ہوگئی کہ یار لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس کا مذاق اڑانا اور میمز بنانا شروع کر دیں۔ سوشل میڈیا پر اگر میمز بن رہی ہیں تو ہمارا خیال ہے کہ یہ دشمنوں (پی ٹی آئی) کی سازش ہے۔ مگر یہ ہمارے جید صحافیوں حامد میر، نصرت جاوید، جاوید چوہدری، سابق قومی کپتان محمد حفیظ اور مختلف سیاسی شخصیات کو کیا ہو گیا کہ وہ بھی اس پر ہنسی ٹھٹا اڑانے لگے، آخر کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔

یہ تو مخالف سیاستدان ہیں یا عوام اور صحافی، جن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان اٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمیں گلہ تو ن لیگیوں سے ہے کہ وہ کیوں اس پر ہانسا نکال کر لوگوں کو ہنسنے کو موقع فراہم کر رہے ہیں۔ رانا ثنا اللہ تو آن اسکرین اس بیان سے جڑے سوال پر ہنستے ہیں جب کہ اندرون خانہ ن لیگ کی بیٹھکوں میں تو اس پر کان پھاڑ قہقہے تک لگائے جانے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ اس بیان سے شہباز شریف کو ملکی نہیں بین الاقوامی ایک اور شہرت مل گئی ہے اور بیرونی دنیا سے بھی اس پر میمز بن رہی ہیں۔

سوچیں پارلیمنٹ میں حکومتی تقریر کے دوران اچانک اووو، اووو کی آوازیں آنے لگیں تو ’’منتخب عوامی نمائندوں‘‘ کا یہ ایوان ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے جیسا منظر پیش کرنے لگے۔ ویسے ناچیز کی جانب سے ایک تجویز ہے کہ جس طرح اس ایوان سے تھوک کے بھاؤ سے بل پاس کرائے جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے یہ بھی پاس کرا دیا جائے کہ آئندہ احتجاج کے لیے کوئی اور نعرہ نہیں لگے گا، سب صرف ’’اووو، اووو‘‘ ہی کریں گے۔ اگر اپوزیشن رخنہ ڈالے تو ایوان صدر کس کام آئے گا، وہاں سے بزور آرڈیننس ملک و قوم کو ترقی کے اوج ثریا پر پہنچانے والے اس فارمولے کو قانون بنایا جا سکتا ہے، بلکہ اس پر 100 فیصد عملدرآمد کے لیے حکومت کی جانب سے خلاف ورزی پر بھاری سزا یا جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔

دنیا بھر میں تقریروں میں سیاستدانوں کی زبان پھسلتی رہتی ہے لیکن وہ اس کا فوری تدارک کر لیتے ہیں لیکن شہباز شریف وہ شعلہ بیان سیاستدان ہیں، جن کی زبان اتنی طویل اور باقاعدہ پلاننگ کے تحت پھسلتی ہے کہ پھر چکنا گھڑا بن جاتی ہے اور اتنی زبان زد عام ہو جاتی ہے جیسا کہ ماضی میں ’’میں بھیک مانگنے نہیں آیا مگر پھر بھی‘‘ والا ایک تقریب میں کیا گیا خطاب اب تک قوم کیا، دنیا کو نہیں بھولا ہے۔

ذرا تصور کریں کہ نواز شریف اچانک ٹی وی اسکرین پر آئیں اور دوران گفتگو حسب سابق ماضی میں پہنچ کر اپنے خلاف روا رکھے گئے رویے پر ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کہہ کر احتجاج کرنے کے بجائے صرف ’’اووو، اوووو، اووو‘‘ کریں تو کیسا لگے گا۔ یا پھر اتحادی جماعتیں ن لیگ، پی پی پی، ایم کیو ایم اختلاف رائے ہونے پر میٹنگ میں صرف اووو، اووو کریں اور اٹھ جائیں تو اس بیٹھک کا کیا نتیجہ نکلے گا۔

وزیراعظم نے تو قوم کو ترقی کا راز بتا دیا۔ اب اگر اس پر بھی قوم ترقی نہ کرے تو قصور ہمارے پیارے وزیراعظم کا نہیں بلکہ نا اہل قوم کا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ جس سُر تال اور لے کے ساتھ جاپانی قوم اووو کرتے ہوں پاکستانی وہ انداز نہ اپنا سکیں اور یوں ترقی کی راہ میں رکاوٹیں آئیں۔ اس لیے ہمارا بھی ایک مفت مشورہ ہے کہ ملک میں ایسے تربیتی مراکز قائم کیے جائیں جہاں قوم کو صحیح طریقے سے اووو کی آواز نکالنے کی تربیت کی جائے، تاکہ ملک وقوم کی ترقی کا 77 سالہ خواب جلد از جلد شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

Comments

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں