ایک ایسا شخص جو زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہو، ٹھنڈی ہواؤں، سمندر اور بارش کا لطف اٹھانا چاہتا ہو، جو زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی خوشی پر کھل کر ہنسنا چاہتا ہو، اسے کسی محل کی اونچی دیواروں میں قید کر کے سخت اصول و قوانین کا پابند بنا دیا جائے، تو کیا ہوگا؟
یقیناً ایسے شخص کی زندگی نہایت بوجھل اور گھٹن زدہ ہوجائے گی اور ایسا ہی کچھ برطانوی شہزادی لیڈی ڈیانا کے ساتھ ہوا۔
گو کہ لیڈی ڈیانا اور شہزادہ چارلس نے محبت کے رشتے میں بندھ کر اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا تھا، لیکن شاہی خاندان کے سخت اصولوں اور پابندیوں میں جکڑی زندگی ڈیانا جیسی لڑکی کی فطرت سے مطابقت نہ رکھتی تھی جو اڑتی تتلیوں اور پھولوں سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی۔
ڈیانا کے قریبی جاننے والوں کے مطابق شاہی محل میں گزارا جانے والا زندگی کا حصہ ڈیانا کی زندگی کا نہایت تکلیف دہ حصہ تھا۔
لیڈی ڈیانا کی 20 ویں برسی کے موقع پر اے آر وائی نیوز پر نشر کی جانے والی خصوصی دستاویزی فلم میں اس خوبصورت شہزادی کی زندگی کے کئی تکلیف دہ گوشوں سے پردہ اٹھایا گیا۔
سنہ 1982 میں جب ڈیانا اپنے پہلے بیٹے شہزادہ ولیم کی ماں بنی تو اسے اپنی زندگی میں خوشی کی جھلک نظر آئی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرے گی۔
مگر شومئی قسمت اس کی نفسیاتی صحت اس قابل نہ تھی۔ ڈیانا بولیمیا ڈس آرڈر کا شکار ہوگئی۔ یہ مرض دراصل مریض کی اشتہا میں بے پناہ اضافہ کردیتا ہے۔
نتیجتاً زیادہ کھانے کے باعث جب مریض کا وزن بڑھنے لگتا ہے تو وہ سخت ورزشیں شروع کردیتا ہے جو نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
یہی نہیں، محافل میں اپنی اشتہا پر قابو نہ پاسکنا اور غیر معمولی طریقے سے کھانا یقیناً شرمندگی کا باعث بنتا ہے اور شاہی خاندان کی بہو کے لیے یہ بات تو نہایت ہی ناقابل برداشت اور معیوب سمجھی جانے لگی۔
شاہی خاندان، خود شہزادہ چارلس اور لوگوں کے رویے نے ڈیانا کی ذہنی صحت کو مزید بدتری کی جانب گامزن کردیا اور 2 سال کے دوران ڈیانا نے ایک، 2 بار نہیں بلکہ 5 بار اپنے ہاتھوں اپنی جان لینے کی کوشش کی۔
خوش قسمتی سے ڈیانا کو بچا تو لیا گیا، تاہم شاہی خاندان کا کوئی فرد یہ نہ سمجھ سکا کہ اسے باقاعدہ علاج اور ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: ذہنی مسائل کا شکار افراد کی مدد کریں
بالآخر شہزادہ ہیری کی پیدائش کے بعد ڈیانا کی ایک بہترین دوست اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئی جہاں اس نے ڈیانا کی ایک ڈاکٹر سے ملاقات کروائی، اس کے بعد ہی لیڈی ڈیانا معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے میں کامیاب ہوسکی۔
لیڈی ڈیانا زندگی کو محبت کے ساتھ، اور فطرت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جینا چاتی تھی۔ وہ کہتی تھی، ’محبت کے بغیر زندگی گزارنا دنیا کی سب سے تکلیف دہ بیماری ہے‘۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بار اس نے کہا تھا، ’میں اس ملک کی ملکہ بننے کے بجائے دلوں کی ملکہ بننا پسند کروں گی‘۔
ڈیانا نے اپنا کہا پورا کیا، وہ برطانیہ کی ملکہ تو نہ بن سکی لیکن دلوں کی ملکہ ضرور بن گئی اور اس کی موت کے کئی سال بعد آج بھی اس کے چاہنے والے اسے یاد کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: شہزادی ڈیانا کے زندگی کے بارے میں خیالات
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔