اسلام آباد : پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے 60فیصد حصص کے لیے حکومت کی مقرر کردہ 85 ارب روپے کی کم سے کم سرکاری قیمت کے مقابلے میں صرف دس ارب روپے کی واحد بولی موصول ہوئی۔
حکومت کو 6 گروپس میں سے صرف ایک پارٹی بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم کی جانب سے بولی موصول ہوئی جبکہ 5 گروپ اس بولی کے عمل سے دور رہے۔،
نجکاری کمیشن نے ابتدائی طور پر ایئر بلیو لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، ایئر عربیہ کی فلائی جناح، وائی بی ہولڈنگز پرائیویٹ، پاک ایتھنول پرائیویٹ اور رئیل اسٹیٹ کنسورشیم بلیو ورلڈ سٹی کو قومی ایئرلائن میں اکثریتی حصص کے لیے شارٹ لسٹ کیا تھا۔
جمع کرائی بولی کا 60 فیصد شیئر صرف12 فیصد بنتا ہے، بولی دہندہ کو سرکاری قیمت میں خریدنے کیلئے 30 منٹ کا مزید وقت دیا گیا تاہم بولی دہندہ نے اپنی رقم بڑھانے سے انکار کرتے ہوئے 10 ارب سے زیادہ کا ریٹ نہیں دیا۔
بلیو ورلڈ سٹی کی جانب سے پی آئی اے کو خریدنے کیلئے 10 ارب روپے کی بولی کا جائزہ وفاقی کابینہ لے گی جس کے بعد پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ سیکٹری نجکاری نے گزشتہ ماہ جون میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایا تھا کہ آئندہ سال 80ارب روپے کے نقصان سے بچنے کیلئے قومی ایئر لائن کی نجکاری کی جارہی ہے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے کی میزبان ماریہ میمن نے پی آئی اے کی نجکاری کے معاہدے کے خدوخال کیا تھے؟ وہ کیا سخت شرائط تھیں جو حکومت نے اس کی نجکاری کیلئے رکھی تھیں؟ اس بارے میں تفصیلی روشنی ڈالی۔
انہوں نے بتایا کہ پہلی شرط یہ تھی کہ پی آئی اے کے ملازمین کو 18 ماہ تک ملازمت پر رکھا جائے گا اور 18 ماہ بعد 70 فیصد ملازمین کو ازسر نو جاب لیٹرز آفر کیے جائیں گے۔
معاہدے کے مطابق پی آئی اے خریدنے والی کمپنی 5 سال تک 30 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کے جہازوں کی تعداد 45 تک بڑھائی جائے گی، اور ایئر لائن اپنے تمام روٹس پر سروسز کو بحال کرے گی۔
ماریہ میمن نے سوال کیا کہ ان سب شرائط کے باوجود ادارے کی بولی اتنی کم کیوں لگی؟ ان کا کہنا تھا کہ بی بی سی کی رپورٹ میں ان وجوہات سے متعلق بتایا گیا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کی بولی میں ایک ہی پارٹی کا حصہ لینا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ پی آئی اے کے 7 ہزار ملازمین کو کوئی لینے کو تیار نہیں اور ادارے کی نجکاری کے عمل میں غیر ملکی کمپنیوں کی عدم دلچسپی بھی اس کی بڑی وجہ ہے ساتھ ہی پی آئی اے کو شدید خسارے کا سامنا بھی ہے۔
اس کے علاوہ کمپنیوں کو مستقبل میں حکومت کے اس معاہدے پر پورا اترنے کی صلاحیت کے بارے میں بھی خدشات ہیں۔
ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ مئی 2024 میں اس وقت کے نجکاری کے وزیر عبدالعلیم خان کے دعوؤں کے مطابق پاکستان کی تین بڑی ایئر لائنز سمیت بڑی دس کمپنیاں اس ادارے کو لینے میں دلچسپی کا اظہار کررہی ہیں اور جیسے ہی بین الاقوامی روٹ کھلیں گے پی آئی اے اسی دن سے منافع میں چلی جائے گی۔
لیکن جب نجکاری کیلئے بولی کے عمل کا آغاز ہوا تو حکومت کیلئے یہ شرمندگی کا باعث بن گیا، تاہم اب اس معاملے میں سیاست بھی آگئی ہے کیونکہ اب خیبر پختونخوا کی حکومت نے پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
خیبر پختونخوا کی حکومت کا کہنا ہے کہ ہم اس ادارے کو 10 ارب رپے سے بھی زیادہ قیمت پر خریدنے کیلئے تیار ہے۔ جس پر ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کمپنیاں چلانا صوبائی حکومتوں کا کام نہیں ہوتا پہلے اپنا صوبہ چلالیں۔