مینگروز کے پودے قدرت کی وہ قیمتی نعمت ہے جو ساحلوں پر لہروں کے دباؤ کو روکتے اور سیلابی صورتحال میں دیوار کا کام انجام دیتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ان کی افزائش نہیں ہو پارہی۔
اس صورت حال کا خوفناک ترین پہلو یہ ہے کہ کراچی کے ساحلی علاقوں کے قریب واقع جزیرے سمندر میں غرق ہوتے جا رہے ہیں، اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ان جنگلات کو نقصان پہنچنا ہے جو ساحلی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
کراچی کے پسماندہ علاقے ریڑھی گوٹھ کے قاسمانی محلے سے تعلق رکھنے والی ہونہار طالبہ الماس قاسمانی جو مینگروز کے درختوں کو بچانے اور ماہی گیروں کے روزگار کو مستحکم بنانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے الماس قاسمانی نے اپنی اس کاوش کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔
کراچی کی ساحلوں کی حفاظت کے مشن پر عمل پیرا الماس قاسمانی نے بتایا کہ ہم ماہی گیر ہیں اور ہمارے معاش کا ذریعہ یہی سمندر ہے، ہم نے اپنے جنگلات کو تباہی سے بچانا ہے اسی میں ہماری بقاء بھی ہے۔
جب میں نے دیکھا کہ ساحل سے مینگروز کی کٹائی کی جارہی ہے تو ریڑھی گوٹھ کے لوگوں کے ساتھ مل کر اس کی شجرکاری کا منصوبہ بنایا، اس کیلیے مختلف این جی اوز سے رابطہ کیا جنہوں نے ہماری بھرپور مدد کی۔
الماس نے بتایا کہ مینگروز کے پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے میں دیگر دس درختوں سے زیادہ کارآمد ہیں، گزشتہ دوسال سے ہم مینگروز کی شجر کاری کررہے ہیں، یہاں کے ساحل پر پانی میں بہت زیادہ آلودگی ہے جس کی وجہ سے پودے نہیں پنپتے اس لیے یہاں سے دور کشتی کے ذریعے کڈیرو جزیرے پر جاکر شجر کاری کرتے ہیں۔
الماس قاسمانی نے بتایا کہ پچھلے سال ہم نے اس علاقے میں 4 ہزار کے قریب مینگروز کے پودے لگائے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگر کراچی کے سیوریج کے پانی کو فلٹر کرکے سمندر میں چھوڑا جائے تو یہاں بھی ان پودوں کی افزائش ہوسکتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پہلے یہاں مچھلیاں اور جھینگے بہت بڑی تعداد میں آتے تھے لیکن یہاں کے پانی میں آلودگی کے باعث اب ان کی تعداد آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اسی لیے اب ساحل سے بہت دور جاکر شکار کرنا پڑتا ہے۔
الماس کا کہنا تھا کہ میرا خواب ہے کہ یہاں ایک کروڑ مینگروز کے پودے لگاؤں اور ان کو بڑا ہوتا ہوا دیکھوں اور یہی میری زندگی کا مقصد ہے کہ مینگروز کے تحفظ کیلیے کام کروں۔