ہفتہ, ستمبر 28, 2024
اشتہار

پی ٹی آئی نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟ چیف جسٹس کا استفسار

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں سےمتعلق کیس کی سماعت میں استفسار کیا پی ٹی آئی نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سےمتعلق اہم کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی لارجز بینچ نے سماعت کی.

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے دلائل میں اعلٰی عدلیہ کےمختلف فیصلوں کاحوالہ دیا گیا ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصورعلی شاہ کےفیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل نے کہا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کونیچرل حدودسےمطابقت پرزوردیاگیا۔

- Advertisement -

سنی اتحاد کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 51اور106سےتین نکات بتاناضروری ہیں، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کافیصلہ غلط ہےتوآپ آئین کی درست وضاحت کر دیں، الیکشن کمیشن کوچھوڑ دیں اپنی بات کریں، آئین و قانون کےمطابق بتائیں سنی اتحادکونسل کوکیسےمخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے آزادامیدوارانتخابات میں حصہ لینےوالی کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتےہیں، جو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑکرآئیں ان کوعوام نےووٹ دیاہے، ایسی جماعت جس نے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظر اندازکردیں؟ہم ایساکیوں کریں؟ تو وکیل سنی اتحاد کونسل کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ آئینی شقوں کے مقصد کا ہے تو جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ جنہوں نےالیکشن لڑنےکی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں۔

جسٹس عرفان سعادت نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کےدلائل سےتوآئین میں دیےگئےالفاظ ہی غیرمؤثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل توپولیٹیکل پارٹی ہی نہیں ہے۔

اس حوالے سے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان چلےجانےکےبعد پولیٹیکل پارٹی نہیں رہی، پولیٹیکل ان لسٹڈپولیٹیکل پارٹی توہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی اب بھی پولیٹیکل پارٹی وجود رکھتی ہے تو انہوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی، اس دلیل کودرست مان لیں توآپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟ یہ توآپ کےاپنےدلائل کے خلاف ہے۔

جسٹس شاہد وحید نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے رول 92کی زیلی شق 2 پڑھیں ، جبکہ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آزاد امیدار الیکشن کمیشن نےقرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائےکااطلاق ہم پرلازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیادسیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کوسپریم کورٹ فیصلےکےسبب آزادامیدوارقراردیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے تمام امیدوارپی ٹی آئی کےتھےحقائق منافی ہیں، پی ٹی آئی نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کرا کر واپس کیوں لیےگئے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ مخصوص نشستیں صرف متناسب نمائندگی کےسسٹم کےتحت ہی دی جا سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کےنظام کے علاوہ مخصوص نشستیں الاٹ کرنےکاکوئی تصورنہیں، مخصوص نشستیں امیدواروں کانہیں سیاسی جماعتوں کاحق ہوتاہے۔

وکیل سنی اتحاد کونسل نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن ایک جانب کہتاہےآزادامیدوارکسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتاہے، دوسری جانب الیکشن کمیشن کامؤقف ہے شمولیت صرف پارلیمان میں موجودجماعت میں ہو سکتی ہے،الیکشن کمیشن کی یہ تشریح خودکشی کے مترادف ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن اور آپ کی تشریح کے پابند نہیں،عدالت آئین میں درج الفاظ کی پابند ہے، ممکن ہے الیکشن کمیشن کی تشریح سےعدالت متفق ہونہ آپ کی تشریح سے، جس پر وکیل نے کہا کہ سوال یہی ہےالیکشن میں حصہ نہ لینےوالی جماعت کومخصوص نشستیں مل سکتی ہیں یانہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہناچاہ رہےہیں عدالت آئین میں درج الفاظ کےمطلب پرتشریح نہ کرے۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت نےصرف مطلب کونہیں بلکہ آئین کی شقوں کےمقصدکوبھی دیکھناہے، تو جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے مخصوص نشستیں ایسی جماعت کوکیسےدی جا سکتی ہیں جنہوں نےالیکشن لڑنےکی زحمت ہی نہیں کی۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کیاآزاد ارکان نئی سیاسی جماعت قائم کر سکتے ہیں؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد ارکان اگر 3دن میں سیاسی جماعت رجسٹرکراسکتےہیں توضروراس میں شامل ہوسکتےہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہتےہیں سیاسی جماعت کیلئےانتخابات میں نشست حاصل کرناضروری نہیں ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں،الیکشن کمیشن تسلیم کرتا ہے پی ٹی آئی اورسنی اتحاد کونسل دونوں رجسٹرڈجماعتیں ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے تو آزاد ارکان اس میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟کیا آزاد ارکان نے پی ٹی آئی جوائن نہ کرکے سیاسی خودکشی نہیں کی؟

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے آپ کےدلائل مفادات کا ٹکراؤ ہیں، آپ سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کریں یاپی ٹی آئی کی ، ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، نظریاتی میں گئےاورپھرسنی اتحادکونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

جس پر وکیل سنی اتحادکونسل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسےعظیم ججزبھی گزرے جنہوں نےپی سی اوکےتحت حلف اٹھانے سے انکار کیا، صرف آئین پر رہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا،ہم یہ نہیں سنیں گے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے۔

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کےحق میں دلائل مفادکےٹکراؤمیں آتاہے، سنی اتحاد کونسل سے تو انتخابی نشان واپس نہیں لیا گیا، آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نےامیدواروں کوآزادقراردیاتواپیل کیوں دائرنہیں کی؟ تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا اس سوال کاجواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ رولزآئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تو وکیل نے بتایا کہ جسٹس منصور نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا 10 فیصد والی جماعتوں کوساری مخصوص نشستیں دیدیں گے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیےاڑائی گئیں کیونکہ آئین پرعمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔

چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے، اب اس سے زیادہ کیا پروگریسو کیا ہوگا،کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں، ہمارے آئین کو بنے50سال ہوئے ہیں، امریکااور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی، مشکل سے ملک پٹری پرآتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی کے صدر تھے انھوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی،بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے انھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسےانگلیاں نہ اٹھائیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کرا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی،آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنھوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کےعلم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کرلے تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ میں آپ کی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتےہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی،الیکشن کس نےکرائے الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، صدر مملکت اس وقت کون تھے، عارف علوی تھے، کیا پی ٹی آئی کوہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرائیں۔

منت،سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کرائے، اس وقت وزیراعظم بانی پی ٹی آئی تھے، بانی پی ٹی آئی بطوروزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہورہےتھے، الیکشن کرانے کیلئےسال بھر کی تاریخ دی گئی، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں،آدھی بات نہ کریں۔

وکیل سنی اتحاد کونسل نے بتایا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف نظرثانی زیر التوا ہے،جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم چیک کرا لیتے ہیں، حامد خان صاحب آپ نے ہمیں یاد بھی کرایا کہ نظرثانی زیر التوا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے، مخصوص نشستوں کیلئے ترمیم شدہ شیڈیول بھی دیا جاسکتا ہے، آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتےہیں تو فہرست بعد میں دی جاسکتی ہے تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آجائے گا، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔

وکیل سنی اتحاد کونسل کی بار بار رکاوٹ ڈالنےپر چیف جسٹس نے اظہارناراضگی کرتے ہوئے کہا کہ آپ یوں یوں ہاتھوں کوہلائیں گے تو پھر میں بات نہیں کروں گا ، جب آپ بات کرتے ہیں تو ہم ایسا کچھ بھی نہیں کرتے، جس پر وکیل سنی اتحاد کونسل نے معذرت کرلی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں