اسلام آباد میں ڈی چوک اور اطراف کی سیکورٹی سخت کر دی گئی ہے اور ڈی چوک کی طرف بڑھنے والوں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج اور مظاہرین کی آمد کے پیش نظر ڈی چوک اور اس کے اطراف میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے جب کہ ڈی چوک کی طرف بڑھنے والوں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کی ریلی کی قیادت کرنے والوں سمیت اہم رہنماؤں کی گرفتاری کی بھی ہدایات کر دی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ اڈیالہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 24 نومبر کو اسلام آباد ڈی چوک پر احتجاج اور دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے تمام رہنماؤں، اراکین پارلیمنٹ اور کارکنوں کو احتجاج میں شرکت کی ہدایت کی تھی۔
بانی پی ٹی آئی کی اپیل پر کے پی، پنجاب سے قافلے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے تاہم حکومت نے کئی مقامات پر کنٹینرز لگا کر اور رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کے احتجاجی قافلہ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور و دیگر کی قیادت میں قافلہ اسلام آباد کی جانب گامزن اور پشاور موڑ پر دھرنا دینے کا اعلان کیا۔
گزشتہ روز اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے اور حکومت کی جانب سے انہیں پشاور موڑ نہیں سنگجانی میں احتجاج یا دھرنا دینے کی پیشکش کی گئی تھی اور یہ بھی پیغام دیا گیا تھا کہ پیغام دیا گیا اسیران کی رہائی کیلئے کمیٹی تشکیل دی جاسکتی ہے۔
تاہم پیر اور منگل کی درمیانی شب سری نگر ہائی وے پر شرپسندوں نے گاڑی رینجرز اہلکاروں پر چڑھا دی، جس کے نتیجے میں 4 رینجرز اہلکار شہید جبکہ رینجرز اور پولیس کے 5 جوان شدید زخمی ہو گئے، جنہیں طبی امداد کیلیے اسپتال منتقل کیا گیا۔
اس شر پسند واقعے کے بعد حکومت نے آرٹیکل 245 کے تحت پاک فوج کو طلب کر لیا جس نے ڈی چوک پر ذمے داریاں سنبھال لی ہیں جب کہ اس کے ساتھ ہی شرپسندوں سے نمٹنے اور موقع پر گولی مارنے کے بھی واضح احکامات جاری بھی کیے جا چکے ہیں۔