اسلام آباد: واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کو دھکمی آمیز مراسلے سے متعلق پوچھے گئے پی ٹی آئی کابینہ کے سوالات سامنے آ گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کابینہ نے کمیشن سے دھمکی آمیز مراسلے سے متعلق اہم سوالات پوچھے تھے، اور کہا تھا کہ کمیشن بنایا جائے جو ان سوالوں کا جواب دے۔
کابینہ نے سوال کیا کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دستاویز دوسرے ملک میں متعین نمائندے کے پیغام پر مشتمل ہے؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ مذکورہ دستاویز میں ایک باضابطہ ملاقات کی تفصیلات موجود ہیں؟
کابینہ نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ملاقات میں تحریک عدم اعتماد کا ذکر کیا گیا؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان کی معافی کو عمران خان کو ہٹانے کی شرط کے طور پر رکھا گیا؟
کمیشن کے سامنے کابینہ نے یہ سوال بھی رکھا کہ کیا قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے کو پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار نہیں دیا؟ اور کیا سفیر کے مشورے کی روشنی میں مذکورہ ملک کو دیمارش دینے کا فیصلہ نہیں ہوا؟ کیا قومی سلامتی کمیٹی نے اہم نہ جانا کہ اسے پارلیمان سلامتی کمیٹی میں لایا جائے؟
کابینہ نے کہا کہ ان نکات پر تحقیقات کی جائے، اور مراسلے میں دھمکی اور مقامی کرداروں میں گٹھ جوڑ کا سراغ لگایا جائے، مخصوص سفارت کاروں کی حزب اختلاف اور منحرف اراکین سے ملاقاتوں کی چھان بین کرنا ہوں گی۔
کابینہ نے کہا کہ تحقیق کار سلامتی کمیٹی اجلاس کے شرکا میں سے ہر ایک کے خیالات کی چھان بین کے بعد رائے دیں گے، تحقیق کار کی رائے کے بعد ہی مختلف کرداروں کے حقیقی عزائم اور باہم تعلقات واضح ہوں گے۔
ادھر آج پیر کو ترجمان دفتر خارجہ سے بریفنگ کے دوران امریکی سازش اور مراسلے پر سوالات کی بوچھاڑ کی گئی، ترجمان نے کہا سلامتی کمیٹی کے دونوں بیان ایک دوسرے سےملتے ہیں، پریمئیر انٹیلیجنس ایجنسی نے کمیٹی کو بریفنگ دی، اور ایجنسی نے تصدیق کی کہ کسی بیرونی سازش کےثبوت نہیں ملے۔
ترجمان نے مزید کہا اسد مجید پر کسی قسم کا دباؤ نہیں تھا ایسی خبریں من گھڑت ہیں، دفتر خارجہ نے قانون کے مطابق احتجاجی مراسلہ حوالے کیا، مراسلے کئی روز تک دبانے کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں، ٹیلی گرام دفتر خارجہ پہنچا اور قانون کے مطابق متعلقہ حکام کے حوالے کیا گیا، مراسلہ قومی سلامتی کمیٹی میں زیر بحث لایا گیا اور پھر ڈیمارش دیا گیا۔