پاکستان تحریک انصاف کو ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے بطن سے ایک نئی سیاسی جماعت جنم لے سکتی ہے۔ اس زوال کا سامنا ہماری بیشتر مقبول سیاسی جماعتیں ماضی میں کرچکی ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں 9 مئی کو ہونے والے واقعات کے بعد جس تیزی سے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور بڑے سیاست داں اپنی راہیں پارٹی سے جدا کررہے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی پر خزاں آچکی ہے۔ ایسے میں حسب روایت نئے سیاسی گھونسلے بن رہے ہیں اور سیاسی پرندے ان کی جانب اڑان بھر رہے ہیں۔
9 مئی کے واقعات کی ہر مکتب فکر نے سخت مذمت کی ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ نے بھی اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جب کہ پارٹی کی جانب سے مذمت کی گئی ہے لیکن کراچی سے منتخب رکن قومی اسمبلی محمود مولوی کے بعد پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ ہنوز جاری ہے۔ اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آرہی ہے جس میں پارٹی کے بڑے اور فعال اراکین بھی شامل ہوچکے ہیں۔
اب تک پی ٹی آئی کے اہم پارٹی عہدوں سمیت حکومت میں وفاقی وزرا کی ذمے داریاں نبھانے والی شخصیات جن میں اسد عمر، فواد چوہدری، شیریں مزاری، پرویز خٹک، علی زیدی، عامر کیانی، عمران اسماعیل، جمشید چیمہ، ملیکہ بخاری، فیاض چوہان سمیت درجنوں نام شامل ہیں وہ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ کچھ نے سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کیا تو کسی نے بیماری یا دیگر وجوہات کو جواز بنا کر اپنی راہیں جدا کیں جب کہ بیشتر رہنما منظر سے غائب ہوچکے ہیں۔ پارٹی ترک کرنے والے جن لوگوں کے ناموں کا اوپر ذکر کیا گیا ان میں سے بیشتر کے بارے میں تو کسی کے گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ وہ خزاں کی ہوا چلتے ہی زرد پتوں کی مانند پی ٹی آئی کے درخت سے یوں جھڑ جائیں گے۔ یہ تمام پارٹی کی انتہائی فعال شخصیات تھیں اور چیئرمین پی ٹی آئی کی کچن کیبنٹ میں شامل تھیں جو خود کو عمران خان کا سایہ کہتے تھے لیکن سیانے کہہ گئے ہیں کہ مشکل وقت میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے اور پاکستان کا سیاسی منظر نامہ آج اسی کی عکاسی کر رہا ہے۔ ان میں اسد عمر اور پرویز خٹک نے گو کہ باضابطہ طور پر صرف پارٹی عہدے چھوڑنے کا اعلان کیا پارٹی کو الوداع نہیں کہا لیکن بعض اوقات ان کہی کہانیاں بہت کچھ سنا جاتی ہیں اور آگے چل کر کئی ان کہی کہانیاں بھی سامنے آسکتی ہیں۔
ملک کی موجودہ صورتحال میں پاکستان میں نئی سیاسی صف بندی شروع ہوچکی ہے جس کے نتائج آئندہ چند دنوں میں آنا شروع ہو جائیں گے تاہم جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پاکستان کے سیاسی مستقبل سے دھند آہستہ آہستہ چھٹتی نظر آ رہی ہے۔ ملک کی روایت کے مطابق ایک بار پھر سیاسی جماعت کے بطن سے نئی پارٹی کے جنم لینے کے امکانات قوی ہوگئے ہیں اور اس کے لیے پی ٹی آئی کے سابق رہنما جنہیں اس وقت کی اپوزیشن عمران خان کی اے ٹی ایم مشین کہتی تھی یعنی جہانگیر ترین وہ سرگرم ہوگئے ہیں۔
ماہرین سیاسیات سیاسی جماعتوں کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ یہ ایسی تنظیمیں ہوتی ہیں جو کچھ اصولوں کےتحت قائم کی گئی ہوں اور جس کا مقصد آئینی اور دستوری طریقے سے حکومت حاصل کر کے ان اصولوں کو بروئے کار لانا ہو جن کے لئے ان تنظیموں کو منظّم کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کا شمار بدقسمتی سے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں سیاست کا سب سے بڑا اصول ذاتی مفاد اور موقع پرستی ہے، جہاں سیاستدان فائدہ سمیٹنے کے لیے موقع کے منتظر رہتے ہیں اور انہیں ایک بار پھر یہ موقع 9 مئی کے واقعات کے بعد مل گیا جس کے بعد جہانگیر ترین ہی نہیں بلکہ خود کو سب سے بڑی جمہوری جماعتیں کہنے والی جماعتیں بھی سرگرم ہوچکی ہیں۔ جہانگیر ترین تو اپنی نئی سیاسی جماعت بنانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ گزشتہ تین ہفتوں سے وہ اس کے لیے سرگرم اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور لاہور میں اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ ان کی مجوزہ نئی پارٹی کے کئی نام بھی میڈیا میں گردش کر رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ عنقریب وہ نئی جماعت کا اعلان کر دیں گے۔ ان کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والے 70 اراکین کی انہیں حمایت حاصل ہوگئی ہے اور جب یہ تعداد 100 تک جا پہنچے گی تب وہ اعلان کریں گے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے جو لوگ ان کے ساتھ مل گئے ہیں جن میں ایک نام فواد چوہدری کا بھی لیا جا رہا ہے جنھوں نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرتے وقت کچھ وقت کے لیے سیاست سے وقفہ لینے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ وقفہ ایک ہفتے کا بھی نہ رہا اور گزشتہ دنوں وہ اڈیالہ جیل دیگر منحرف کارکنوں کے ہمراہ شاہ محمود سے ملنے جا پہنچے لیکن یہ گروہ انہیں پی ٹی آئی چھوڑنے پر راضی نہ کرسکا۔ عمران خان اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی غیر موجودگی (نااہلی) کی صورت میں شاہ محمود قریشی پارٹی کی قیادت کریں گے تاہم کل کس نے دیکھی ہے جو رہنما پارٹی چھوڑ گئے ان کے بارے میں بھی کسی نے ایسا گمان نہیں کیا تھا تو ہوسکتا ہے کہ شاہ محمود بھی آنے والے دنوں میں پریس کانفرنس کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ تاہم کئی روز گزر جانے کے باوجود جہانگیر ترین کا پارٹی کا باضابطہ اعلان نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ان کی مراد بَر نہیں آرہی اور بڑے نام ان کا ساتھ دینے میں ہچکچا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی سے ٹوٹ کر آنے والے سیاستدانوں کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے صرف جہانگیر ترین ہی سرگرم نہیں ہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی انہیں گلے لگانے کو تیار ہیں اور انہوں نے اپنی پارٹی کے دروازے پی ٹی آئی کے گھونسلے سے اڑ کر آنے والے پرندوں کے لیے وا کر دیے ہیں۔ پی پی پی اس حوالے سے خاصی سرگرم ہے جنوبی پنجاب سے کئی لوگ اس میں شامل ہوچکے ہیں اور اس کی جانب سے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں تاہم ن لیگ کی جانب سے دو رائے پائی جاتی ہیں۔ اکثریت پی ٹی آئی چھوڑ کر آنے والے یا جہانگیر ترین گروپ سے آنے والوں کو پارٹی میں لینے کو خسارے کا سودا قرار دے رہی ہے اور اس کا جواز وہ گزشتہ سال جولائی میں پنجاب کے 20 حلقوں میں ہونے والی ضمنی الیکشن کو بتا رہی ہے جس میں پی ٹی آئی کے منحرف لوگوں کو ٹکٹ دیے تو ن لیگ کا صفایا ہوگیا تھا۔ دوسرا ن لیگ کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ وہ پی ٹی آئی والوں کو خوش آمدید کہتی ہے تو اپنے پرانے ورکرز کو کیا کہے گی کہ جو ایک دوسرے کے خلاف گند اچھالتے رہے وہ اب کیسے ہم نوالہ ہم پیالہ ہوں گے۔ لیکن یہ سیاست ہے اور سیاست میں کون کب دوست سے دشمن اور دشمن سے دوست بن جائے اس کا فیصلہ مفادات کرتے ہیں جیسا کہ موجودہ حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کی تشکیل ہے۔
ادھر صورتحال یہ ہے کہ جو پریس کانفرنس کرکے پی ٹی آئی پر تبرا بھیج کر اسے چھوڑنے کا اعلان کر رہا ہے وہ رہائی پا رہا ہے لیکن جو اس سے انکار کر رہا ہے وہ رہائی پانے کے بعد دوبارہ گرفتار ہو رہا ہے۔ شہریار آفریدی اس کی ایک مثال ہے جب کہ پی ٹی آئی کے مرکزی صدر چوہدری پرویز الہٰی جو کچھ ماہ قبل ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے ان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت قانونی کارروائیوں میں بھی تیزی آگئی ہے۔ عدالت انہیں ایک کیس سے بری کرتی ہے تو پولیس دوسرے کیس کی فائل لیے عدالت کے باہر ان کی گرفتاری کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں تحریک انصاف حتیٰ کہ عمران خان کو چھوڑ کر نہ جانے والے پارٹی رہنماؤں کیلئے بھی حالات غیر یقینی ہیں۔ تاحال ان کے ساتھ کھڑے رہنماؤں کو اپنے چیئرمین کے نمایاں ووٹ بینک کا احساس ہے۔ یہ صورتحال پی ٹی آئی میں موجود کئی لوگوں کو اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مختلف آپشنز پر غور کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ لوگ عمران خان کے ووٹ چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ مائنس عمران فارمولے کا نتیجہ کیا نکلے گا اور اس سے ان لوگوں کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
اسی سیاسی کشمکش کی صورتحال میں سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 قانون بن گیا۔ اس ایکٹ کے مطابق آرٹیکل 184 کے تحت فیصلوں پر نظرثانی کا دائرہ کار آرٹیکل 185 کے تحت ہوگا اور نظرثانی درخواست کی سماعت فیصلے کرنیوالے بینچ سے بڑا بینچ کرے گا۔ مذکورہ بل کے تحت 184/3 کے تحت سابق فیصلوں پر کسی بھی ملزم کو دی گئی سزا پر نظرثانی کا اختیار مل جائے گا۔ ایکٹ کے اطلاق کے بعد ماضی کے فیصلوں پر نظرثانی درخواست 60 دن میں دائر ہوسکتی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین بھی اپیل دائر کرسکیں گے۔موجودہ سیاسی تناظر میں اس ایکٹ کا قانون بننا بھی مستقبل کا منظر نامہ بنا رہا ہے اور لگتا ہے کہ مریم نواز جو لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتی رہی ہیں وہ لیول پلیئنگ فیلڈ انہیں ملنے والی ہے۔
پی ٹی آئی میں جو آج ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے یہ پاکستان میں پہلی بار کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کی ایک طویل تاریخ ہے اور تقریباً اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ پاکستان۔ ماضی میں کئی مواقع پر تقریباً ہر سیاسی جماعت کے اندر سے نظریہ ضرورت کے تحت یا تو نئی جماعتیں نکالی گئیں یا پھر ان پارٹیوں میں رہنماوٗں کے باہمی اختلافات نے تقسیم در تقسیم کے فارمولے پر عمل کرایا۔ اس کی واضح مثال ری پبلکن پارٹی کا قیام تھا، جو ملک میں ون یونٹ کے قیام کی راہ ہموار کرنے کیلئے راتوں رات تخلیق کے عمل سے گزری اور اگلے روز ایک ایسی حکومت قائم ہوتے دیکھی گئی جس نے ون یونٹ کے قیام کو ممکن بنایا۔
ایوب خان کو اپنے آمرانہ دور حکومت کو دوام بخشنے کے لیے جب سیاسی حلقوں کی مدد کی ضرورت پڑی تو پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو دو حصوں میں کنونشن لیگ اور کونسل لیگ کے نام سے تقسیم کیا گیا۔ جس کے بعد مسلم لیگ اتنی بار تقسیم ہوئی کہ شاید لیگیوں کو ہی معلوم نہ ہو کہ وہ کتنی تقسیم و ’’تطہیر‘‘ کے عمل سے گزری۔ ضیا الحق کے مارشل لا دور میں جب محمد خان جونیجو کو متحدہ مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ ہوا تو اس کے بطن سے مسلم لیگ فنکشنل نے جنم لیا اور جب ضیا الحق کی نواز شریف کو ملنے والی آشیرباد سے مسلم لیگ پر نواز شریف کا تسلط قائم ہوا تو جونیجو لیگ قائم ہوئی۔ ن لیگ بعد میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر چھا گئی اور اس وقت چوتھی بار وفاق میں حکومت کر رہی ہے۔ اس ن لیگ کو مشرف مارشل لا میں ٹوٹ پھوٹ کا سامنا رہا ہے اور اسے توڑ کر پہلے ہم خیال اراکین کے روپ میں ڈھالا گیا پھر ق لیگ بنائی گئی جو کنگ پارٹی کے نام سے مشہور ہوئی جبکہ پیپلز پارٹی کے بطن سے پیٹریاٹ نے جنم لیا۔ آج یہ جنم شدہ پارٹیاں کہاں ہیں اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کیا مقام رکھتی ہیں یہ سیاسی کھیل کھیلنے والوں کے لیے ایک سبق کی حیثیت رکھتا ہے اگر حاصل کیا جائے تو۔ باقی مسلم لیگ کو جو گروپ ضیا لیگ، آل پاکستان مسلم لیگ، مسلم لیگ عوامی یا دیگر ناموں کے ساتھ سامنے آئے ان کی حیثیت تانگہ پارٹی سے زیادہ کچھ نہیں اور اگر سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں سوائے شیخ رشید کے کوئی اور سیاسی فوائد نہ سمیٹ سکا۔ صرف مرکزی دھارے میں موجود پارٹیاں ہی نہیں بلکہ عوام نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جے یو آئی، جے یو پی بھی تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزر چکی ہیں ملکی افق پر ایک واحد سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہے جو تاحال کسی تقسیم کا شکار نہیں ہوئی اور ایک نظم و ضبط کے ساتھ سیاست کررہی ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اب تک 21 وزیراعظم آئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے 5 سال کی مدت پوری کی ہو لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ بھی کئی اور سیاستدان ہیں جو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور اقتدار سے فیضیاب ہونے کے لیے غیر آئینی اقدامات کے ہم قدم ہو جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں تاریخ کا ذکر ضرور کرتی ہیں لیکن جب تاریخ سے سبق سیکھنے کا وقت آتا ہے تو مفادات کے حصول کے لیے سبق حاصل کرنے کے بجائے بغلیں جھانکنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا چلنا بہت مشکل کام نہیں ہے لیکن یہاں کی سیاسی جماعتوں نے اسے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ملک نہ صرف دو لخت ہوا بلکہ اپنی درست سمت کھوتے ہوئے انتشار، افراتفری اور غربت کی طرف چلا گیا۔
آج ملک کی جو بھی سیاسی صورتحال ہے پرانی نسل ری پلے دیکھ رہی ہے لیکن نئی نسل الجھن کا شکار ہے۔ صاحب اختیار جان لیں کہ وقت کا جبر زبان تو خاموش کرا سکتا ہے لیکن تاریخ کی آنکھ بند ہوتی ہے اور نہ قلم رُکتا ہے اور جب تاریخ کا یہ سچ سامنے آتا ہے تو بہت کم لوگوں کو ہضم ہوتا ہے۔ آج جو بھی اقتدار کے لالچ میں جھولیاں پھیلا رہے ہیں ان کا ماضی یاد رکھنا چاہیے کہ سیاسی جھولیوں میں ہمیشہ چھید ہوتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں جب اقتدار کے اولے برستے ہیں تو جھولی اس وقت بھر ضرور جاتی ہے لیکن جب وقت کی تپش ان کو پگھلاتی ہے تو ساری برف پانی بن کر ان چھیدوں سے بہہ جاتی ہے اور پھر جھولی خالی رہ جاتی ہے یہی ہماری سیاسی تاریخ ہے لیکن تاریخ سے سبق کم ہی سیکھا جاتا ہے۔