پیر, مئی 20, 2024
اشتہار

بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی؟ چیف جسٹس

اشتہار

حیرت انگیز

پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست کی سماعت پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق پنجاب میں انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظر ثانی کی درخواست کی آج مسلسل تیسرے روز سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی جب کہ الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے اپنے دلائل دیے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے رولنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تیسرا دن ہے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل سن رہے ہیں، بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کافی وقت ضائع ہوا، ہمیں بتائیے کہ آپ کا اصل نکتہ کیا ہے؟ آخر بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی۔ سماعت کو پیر تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔

- Advertisement -

آج سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ رولز آئینی اختیارات کو کم نہیں کرسکتے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز عدالتی آئینی اختیارات کو کیسے کم کرتے ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ فل کورٹ کئی مقدمات میں قرار دے چکی نظر ثانی دائرہ کار محدود نہیں ہوتا، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کی منطق مان لیں توسپریم کورٹ رولز عملی طور پر کالعدم ہو جائیں گے۔

سجیل سواتی ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ بعض اوقات پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار بھی محدود ہے۔ توہین عدالت کیس میں لارجر بینچ نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں کیا جا سکتا، نظرثانی درخواست دراصل مرکزی کیس کا ہی تسلسل ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو کہا کہ آپ ہوا میں تیر چلاتے رہیں گے تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے، کم ازکم ٹارگٹ کرکے فائر کریں پتہ تو چلے کہنا کیا چاہتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے نظرثانی کا دائرہ کار مرکزی کیس سے بھی زیادہ بڑا کر دیا ہے۔

وکیل سجیل سواتی نے موقف اپنایا کہ انتخابات کیلیے نگراں حکومت کا ہونا ضروری ہے اور اس کی تعیناتی کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا۔ نگراں حکمرانوں کے اہلخانہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے اور آئین میں انتخابات کی شفافیت کے پیش نظر ہی یہ پابندی لگائی گئی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہو تو کیا ساڑھے 4 سال نگران حکومت رہے گی، کیا ساڑھے چار سال تک قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا جائے گا؟

اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ساڑھے چار سال  نگراں حکومت ہی متعلقہ صوبے میں کام کرتی رہے گی؟ آئین پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔ آرٹیکل 254 سے 90 دن کی تاخیر کو قانونی سہارا مل سکتا ہے اور انتخابات میں 90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مداوا تو ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ ساڑھے 4 سال کیلیے نئی منتخب حکومت آ سکتی ہے۔ آئین میں کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت 6 ماہ اور نگران حکومت ساڑھے 4 سال رہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہو تو کیا ساڑھے 4 سال نگران حکومت رہے گی، کیا ساڑھے چار سال تک قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا جائے گا؟

اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ساڑھے چار سال  نگراں حکومت ہی متعلقہ صوبے میں کام کرتی رہے گی؟ آئین پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔ آرٹیکل 254 سے 90 دن کی تاخیر کو قانونی سہارا مل سکتا ہے اور انتخابات میں 90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی کہا کہ 90 دن کا وقت بھی آئین میں ہی دیا گیا ہے اور نگراں حکومت اس مدت میں نئے الیکشن کرانے کے لیے ہی آتی ہے۔ آئین میں کہا لکھا ہے کہ نگراں حکومت کا دورانیہ بڑھایا جا سکتا ہے؟ نگراں حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ میں عدالت کی آبزرویشن سے متفق ہوں، آئین کی منشا منتخب حکومتیں اور جمہوریت ہی ہے، ملک منتخب حکومت ہی چلا سکتی ہے اور جمہوریت کو بریک نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ 1973 میں آئین بنا تو نگراں حکومتوں کا تصور نہیں تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین بنا تو مضبوط الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، نگران حکومتیں صرف الیکشن کمیشن کی سہولت کیلیے شامل کی گئیں۔ شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ الیکشن کمیشن فنڈز اور سیکیورٹی کی عدم فراہمی کا بہانہ نہیں کرسکتا۔ کیا الیکشن کمیشن بااختیار نہیں ہے؟

جس پر وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ اپنے آئینی اختیارات سے نظر نہیں چرا سکتے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین پر اسکی روح کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔ آپ بتائیں 90 دن کی نگران حکومت ساڑھے 4 سال کیسے رہ سکتی ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ نگران حکومت صرف اس لیے آتی ہے کسی جماعت کو سرکاری سپورٹ نہ ملے، کیا نگران حکومت جب تک چاہے رہ سکتی ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ نگران حکومت کی مدت کا تعین حالات کےمطابق ہو گا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پنجاب اور کے پی دونوں صوبوں میں ہی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ لیکن سپریم کورٹ میں صرف پنجاب میں الیکشن کا فیصلہ چیلنج ہوا تھا جس پر عدالت نے اپنا فیصلہ دیا اور اب آپ نظر ثانی پر دلائل دے رہے ہیں۔ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ کے پی اسمبلی بھی تحلیل ہوئی تھی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہ میرے کہنے کا مطلب تھا کے پی اور پنجاب پورے ملک کا 70 فیصد ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی پہلے تحلیل ہو تو کیا اس پر آئین کا اطلاق نہیں ہوگا۔ نشستیں جتنی بھی ہوں لیکن ہر اسمبلی کی اہمیت برابرہے۔ حکومت جو بھی ہو شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ کیا الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے کہ منتخب حکومت کے ہوتے الیکشن نہیں ہوں گے؟ جس پر وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات سے معذوری ظاہر نہیں کر سکتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا الیکشن کمیشن تو کہتا تھا فنڈز اور سیکورٹی دیں تو انتخابات کرا دیں گے، آئین کے حصول کی بات کر کہ اب خود اس سے بھاگ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہو تو منفی قوتیں اپنا زور لگاتی ہیں، بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی، آرٹیکل 224 کو سرد خانے میں کتنا عرصہ تک رکھ سکتے ہیں؟

وکیل نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات سے الیکشن کمیشن کے خدشات درست ثابت ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے خدشات نہیں بلکہ آئین کے اصولوں کی بات کرنی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عام انتخابات کا مطلب صرف قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں ہوتا۔ بیک وقت الیکشن میں 5 جنرل الیکشن ہوتے ہیں۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے پاس اسمبلی تحلیل کی ویٹو پاور ہیں وہ جب چاہیں اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں تو اگر وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ اگر 6 ماہ بعد اسمبلیاں تحلیل کردیں تو کمیشن کیا کرے گا؟ آئین کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر بتائیں کہ الیکشن کمیشن کا موقف کیا ہے؟

وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کی تاریخ حقائق کے مطابق دی تھی جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ستمبر میں الیکشن کمیشن کہے کہ 8 اکتوبر کو الیکشن ممکن نہیں ہوگا تو پھر کیا ہوگا؟ الیکشن کمیشن دو سال تک کہتا رہے گا کہ انتخابات ممکن نہیں۔ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا فرض ہے اس کی صوابدید نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود کہا آئین کی روح جمہوریت ہے، کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے، تاریخ میں کئی مرتبہ جمہوریت قربان کی گئی، جب بھی جمہوریت کی قربانی دی گئی کئی سال نتائج بھگتے، عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلے میں صرف وسائل نہ ہونے کا ذکر تھا، اب الیکشن کمیشن سیاسی بات کر رہا ہے، الیکشن کمیشن کب کہے گا کہ بس اب بہت ہوگیا، انتخابات ہر صورت ہوں گے، بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ 60 فیصد تھا، سیکیورٹی خدشات کے باوجود بلوچستان کے عوام نے ووٹ ڈالا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائیکورٹ میں انتخابات سے معذوری ظاہر کی نہ سپریم کورٹ میں، سپریم کورٹ کو بھی الیکشن کمیشن نے کہا کہ وسائل درکار ہیں، اب الیکشن کمیشن کہتا ہے آئین کےاصولوں کے مطابق انتخابات ممکن نہیں تو یہ پہلے کیوں نہیں کہا کہ وسائل ملنے پر بھی انتخابات ممکن نہیں ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اپنے تحریری موقف میں بھی یہ نکتہ اٹھایا تھا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صدر اور گورنر کو بھی حقائق سے آگاہ نہیں کیا، دو دن تک آپ صرف مقدمہ دوبارہ سننے پر دلائل دیتے رہے، ایک دن انتخابات سے آئین کی کون سی شقیں غیر موثر ہوں گی، لیڈر آف ہاؤس کو اسمبلی تحلیل کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے، نظام مضبوط ہو تو شاید تمام انتخابات الگ الگ ممکن ہوں۔ فی الحال تو اندھیرے میں ہی سفر کر رہے ہیں جس کی کوئی منزل نظر نہیں آ رہی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سیاسی ماحول دیکھ کر ہی 8 اکتوبر کو الیکشن کی تاریخ دی تھی اور 9 مئی کو جو کچھ ہوا اس خدشے کا اظہار کر چکے تھے۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے وکیل سجیل سواتی کو 9 مئی واقعات پر بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ ایسے نہیں ہوسکتا ہے جو آپ کو سوٹ کرے وہ موقف آپ اپنا لیں۔

انہوں نے کہا کہ کبھی الیکشن کی کوئی تاریخ دیتے ہیں تو کبھی کوئی، پھر کہتے ہیں ممکن ہی نہیں، ہر موڑ پر الیکشن کمیشن نیا موقف اپنا لیتا ہے، آپ ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں لیکن ماضی اور حال میں فرق ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ موجودہ حالات میں انتخابات ممکن نہیں جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ پھر آئینی اصولوں سے موجودہ حالات پر آگئے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پانچوں اسمبلیوں کے الگ الگ انتخابات ہوسکتے ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ نگراں حکومتیں ہوں تو الگ الگ انتخابات ممکن ہیں تاہم موجودہ حالات میں الگ الگ انتخابات ممکن نہیں۔ پنجاب میں منتخب حکومت آگئی تو قومی اسمبلی انتخابات کیسے شفاف ہوں گے؟ الیکشن کمیشن تمام سرکاری مشینری حکومت سے لیتا ہے، نیوٹرل انتظامیہ نہیں ہو گی تو شفاف انتخابات کیسے ہونگے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ قومی اسمبلی کا انتخاب متاثر ہونے کی بات کر رہے ہیں، ارکان قومی اسمبلی بھی تو صوبائی انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، جس آئینی اصول کی بات آپ کر رہے ہیں اس کے مطابق تو اسمبلی تحلیل ہی نہیں ہونی چاہیے، قومی اسمبلی پہلے تحلیل ہو جائے تو کیا صوبائی اسمبلی کو الیکشن کمیشن تحلیل کر سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن کی اگر یہ منطق مان لیں توملک میں منتخب وفاقی حکومت نہیں ہوگی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ایسی صورت حال میں آرٹیکل 224 حل دیتا ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل224 ہر اسمبلی کے لیے ہے صرف وفاق کے لیے نہیں۔ وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ گزشتہ سال پنجاب میں 20 ضمنی انتخاب ہوئے جو مکمل شفاف تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے سے عدالت نے حکم دیا تھا، قومی اسمبلی کے انتخاب میں صوبائی حکومت کی مداخلت روکی جاسکتی ہے،چیف جسٹس

الیکشن کمیشن شفاف اور مضبوط ہو تو مداخلت نہیں ہو سکتی، یہ مسئلہ انتظامی طور پر حل ہو سکتا ہے، الیکشن کمیشن نے خود حل نہیں نکالا تو اب عدالت کو یہ اصول وضع کرنا ہو گا، الیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ کے بہانے قبول نہیں کرنے چاہئیں بلکہ حکومت سے ٹھوس وضاحت لینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کل ارکان اسمبلی کیلیے 20 ارب کی سپلیمنٹری گرانٹس منظور ہوئیں، ارکان اسمبلی کو فنڈز ملنا اچھی بات ہے لیکن الیکشن کمیشن کو بھی انتخابات کے لیے 21 ارب ہی درکار تھے، الیکشن کمیشن خود غیر فعال ہے، اس کے استعدادکار میں اضافے کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے ساڑھے چار لاکھ سیکیورٹی اہلکار مانگے جب کہ ٹوٹل آپریشنل فوج ہی ساڑھے چار لاکھ ہے۔ الیکشن کمیشن کو بھی ڈیمانڈ کرتے ہوئے سوچنا چاہیے، فوج کی سیکیورٹی کی ضرورت کیا ہے، فوج تو صرف سیکیورٹی کے لیے علامتی طور پر ہوتی ہے، فوجی اہلکار کسی کو روکے تو لوگ آرام سے رک جاتے ہیں، جو پولنگ اسٹیشن حساس یا مشکل ترین ہیں وہاں پولنگ موخر ہوسکتی ہے۔ آپ ہوم ورک کرکے تو آئیں تاکہ پتہ چلے کہ الیکشن کمیشن کی مشکل کیا ہے؟

اس موقع پر وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن مکمل با اختیار ہے اور کارروائی کر سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو اختیارات استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ فوج نے الیکشن کمیشن کو کیو آر ایف کی پیشکش کی تھی، میرے خیال سے کیو آر ایف نفری کافی ہے، آئین کی منشا ہے کہ حکومت منتخب ہی ہونی چاہیے، بظاہر 8 اکتوبر کی تاریخ صرف قومی اسمبلی کی وجہ سے دی گئی تھی، حکومت جو کہتی ہے الیکشن کمیشن خاموشی سے مان لیتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سرکاری اداروں کی رپورٹ پرشک کرنے کی وجہ نہیں، دہشتگردی خطرات کو مدنظر رکھ کر ہی 8 اکتوبر کی تاریخ دی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ 8 اکتوبر تک سکیورٹی حالات ٹھیک ہو جائیں گے، یہ موقف تو 22 مارچ کو تھا الیکشن کمیشن آج کیا سوچتا ہے انتخابات کب ہونگے۔

اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد حالات کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔ اس حوالے سے ہدایت لے کر ہی آگاہ کر سکتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 9 مئی کو غیر معمولی واقعات ہوئے لیکن یہ واقعہ انتخابات کے لیے کیسے مسائل پیدا کر رہا ہے؟ 9 مئی کے چکر میں آپ آئین کی منشا کو بھلا رہے ہیں۔

بعد ازاں سماعت کو آئندہ پیر تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں