روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے دو خفیہ بیٹے بھی ہیں جن کا راز فاش ہو گیا ہے اور وہ دنیا کی نظروں سے اوجھل عالیشان زندگی گزار رہے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا نے ایک روسی ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے دو خفیہ بیٹے ہیں، جو دنیا کی نظروں سے دور ایک انتہائی محفوظ مینشن میں انتہائی پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پیوٹن کے دنیا کی نظروں سے اوجھل بچوں میں 9 سالہ ایون اور 5 سالہ ولادی میر جونیئر ہیں جو سال کا بیشتر حصہ ماسکو کے شمال مغرب میں جھیل والڈائی کے قریب اپنے والد کے وسیع اور عالیشان مینشن میں گزارتے ہیں۔ اس کے عملے کو 6500 پاؤنڈ تنخواہ دی جاتی ہے، تاہم انہیں کمپاؤنڈ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان بچوں کی والدہ سابق اولمپک ردھمک جمناسٹ الینا کبایوا Alina kabaeva ہیں جن کے ایک دہائی سے پیوٹن کے ساتھ تعلقات ہیں جو کسی سے مخفی نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایون 2015 میں سوئس شہر لوگانو کے سینٹ اینا میٹرنٹی کلینک میں پیدا ہوا تھا، جب کہ دوسرے بیٹے ولادی میر جونیئر کا ولادت 2019 میں ماسکو میں ہوئی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ان کی تاریخ پیدائش صرف ان کے قریبی رشتہ داروں کو معلوم ہے۔ وہ باقاعدہ کمرشل پروازوں میں سفر نہیں کرتے بلکہ ان کے پاس الگ طیارے ہیں۔
پیوٹن کے ان بیٹوں کا سرکاری ڈیٹا بیس میں اندراج نہیں۔ بچپن سے ہی ان کی جعلی دستاویزات بنائی گئی ہیں، جن کا مقصد جاسوسوں اور ریاست کے تحفظ کرنے والے افراد کے لیے بنایا جانا ہے۔
یہ دونوں بچے کنڈرگارٹنز یا اسکولوں میں بھی نہیں جاتے ہیں بلکہ ان کو نجی طور پر بھرتی کی گئی گورننس پڑھاتی ہیں، جو اسی رہائش گاہ میں رہتی ہیں اور جن کی حفاظت ایف ایس او کرتی ہے۔ وہ کشتیوں اور بکتر بند ٹرینوں پر بھی سفر کرتے ہیں۔
یہ گورننس، آیاؤں، ٹیچرز اور کریملن فیڈرل گارڈ کے اہلکاروں سے گھرے رہتے ہیں اور ایک بڑے لیگو سیٹ اور آئی پیڈ کے ساتھ کھیلنے میں وقت گزارتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان بچوں کے پالتو جانوروں میں دو بونے گھوڑے، خرگوش اور ایک سینٹ برنارڈ نسل کا کتا شامل ہیں، جن کی دیکھ بھال کریملن کے محافظ کرتے ہیں۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بچے انگریزی اور جرمن زبانیں بھی سیکھ رہے ہیں۔
پیوٹن نے کبھی عوامی سطح پر ان بچوں کا براہ راست کوئی حوالہ نہیں دیا۔ تاہم ستمبر 2024 کے پہلے ہفتے کے دوران روسی صدر نے سائبیریا میں ایک اسکول کے بچوں کو بتایا کہ ’میرے خاندان کے افراد اور چھوٹے بچے چینی زبان بھی بولتے ہیں۔