تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

اہرام کا میر محاسب

ممتاز افسانہ نگار نیّر مسعود افسانہ اور رمز سے بھری ہوئی کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی یہ کہانی ایک صاحبِ اقتدار شخص کی طاقت اور غرور کے انجام کو بیان کرتی ہے جو قدیم دور کے اہرام کو ایک چیلنج سمجھ کر توڑنے کے لیے مزدور اکٹھا کرتا ہے، مگر ناکام ہونے کے بعد اپنا شہر چھوڑ کر اسی ویرانے میں چلا جاتا ہے جہاں وہ اہرام موجود ہے۔

بڑے اہرام کی دیواروں پر فرعون کا نام اور اس کی تعریفیں کندہ ہیں۔

اس سے یہ بدیہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس عمارت کو فرعون نے بنوایا ہے۔ لیکن اس سے ایک بدیہی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ فرعون کا نام اور اس کی تعریفیں کندہ ہونے سے پہلے اہرام کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔ مگر کتنے پہلے؟ چند ماہ؟ یا چند سال؟ یا چند صدیاں؟ یا چند ہزار سال؟ اگر کوئی دعویٰ کرے کہ اہرام کی عمارت فرعون سے بیس ہزار سال پہلے بھی موجود تھی تو اس دعوے کی تردید اس کے سوا کوئی دلیل نہ ہوگی کہ اہرام پر فرعون کا نام کندہ ہے، لیکن یہی دلیل اس کا ثبوت ہوگی کہ نام کندہ ہوتے وقت یہ عمارت بنی ہوئی موجود تھی۔

کب سے بنی ہوئی موجود تھی؟ اس سوال کا جواب دینے سے مؤرخ بھی قاصر ہیں اور تعمیرات کے ماہر بھی۔ مؤرخ اس لئے کہ ان کے پاس اہرام کی تعمیر کی دستاویزیں نہیں ہیں، اور ماہر اس لئے کہ ان کے پاس اہرام کی عمر کا پتا لگانے والے آلات نہیں ہیں۔ ان کے ترقی یافتہ آلات نہ یہ بتا سکے ہیں کہ اہرام اپنی کتنی عمر گزار چکا ہے اور نہ یہ بتا سکے ہیں کہ ابھی اہرام کی کتنی عمر باقی ہے۔ البتہ یہ آلات ماضی اور مستقبل دونوں سمتوں میں اہرام کے بہت طویل سفر کی نشاندہی کرتے ہیں۔

تعمیرات کے ماہروں نے یہ تخمینہ ضرور لگا لیا ہے کہ اہرام کے اطراف کی زمینوں اور خود اہرام کی عمارت کے رقبے کے لحاظ سے اس کے بنانے میں زیادہ سے زیادہ کتنے آدمی ایک ساتھ لگ سکتے تھے، اور زیادہ سے زیادہ آدمی کم سے کم کتنی مدت میں اہرام کو مکمل کر سکتے تھے، اور یہ کم سے کم مدت کئی سو سال کو پہنچتی ہے۔ لیکن خلیفہ کے وقت میں اہرام کی ایک سل پر یہ عبارت کندہ پائی گئی۔

’’ہم نے اسے چھ مہینے میں بنایا ہے، کوئی اسے چھ مہینے میں توڑ کر تو دکھا دے۔‘‘

خلیفہ کو غصہ آنا ہی تھا۔ مزدور بھرتی ہوئے اوراہرام پر ایک طرف سے کدالیں چلنا شروع ہوئیں۔ مگر ہوا صرف یہ کہ کدالوں کی نوکیں ٹوٹ گئیں اورپتھروں سے چنگاریاں سی اڑ کر رہ گئیں۔ خلیفہ کو اورغصہ آیا۔ اس نے اہرام کے پتھروں کو آگے سے گرم کرایا۔ جب پتھرخوب تپنے لگے تو ان پر ٹھنڈا ٹھنڈا سرکہ پھینکا گیا۔ چٹ چٹ کی آواز اور پتھروں میں پتلی پتلی لکیریں کھل گئیں۔ ان لکیروں پر نئی کدالیں پڑنا شروع ہوئیں اور پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے الگ ہونے لگے۔ خلیفہ کو تسلّی ہوئی اوروہ دارُالخلافہ کو لوٹ گیا۔ اس کے پیچھے یہ حکم رہ گیا کہ چھ مہینے تک دن رات میں کسی بھی وقت کام روکا نہ جائے۔

چھٹا مہینہ ختم ہوتے ہوتے خلیفہ پھر اپنے امیروں کے ساتھ اہرام کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اتنے دن میں اہرام سے صرف ایک چھوٹی دیوار بھر پتھر الگ کئے جا سکے تھے۔ ان پتھروں کے پیچھے ایک طاق نمودار ہوا تھا جس میں پتھر کا تراشا ہوا ایک مرتبان رکھا تھا۔ مرتبان خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور خلیفہ نے اسے خالی کرایا تو اس میں سے پرانی وضعوں کے سونے کے زیور اور قیمتی پتھر نکلے۔ پھر دیکھا گیا کہ پتھر کے مرتبان پر بھی ایک عبارت کندہ ہے اور خلیفہ کے حکم سے یہ عبارت پڑھی گئی:

’’تو تم اسے نہیں توڑ سکے۔ اپنے کام کی اجرت لو اور واپس جاؤ۔‘‘

اس وقت خلیفہ طاق کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے پیچھے اہرام کا مخروطی سایہ بیابان میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔ خلیفہ مڑا اورآہستہ آہستہ چلتا ہوا وہاں تک پہنچ گیا جہاں اہرام کا سایہ ختم ہو رہا تھا۔ خلیفہ تھوڑا اور آگے بڑھ کر رکا۔ اب زمین پر اس کا بھی سایہ نظر آنے لگا۔ بیابان کی دھوپ میں صرف سائے کو دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خلیفہ اہرام کی چوٹی پر کھڑا ہے۔ لیکن اہرام کی چوٹی پر کوئی نہیں تھا۔ خلیفہ واپس آ کر پھر طاق کے سامنے کھڑا ہوا اور اب اس نے حکم لکھوایا کہ چھ مہینے کی اس مہم کے اخراجات کا مکمل حساب پیش کیا جائے۔ اس نے ایک اور حکم لکھوایا کہ مرتبان سے نکلنے والے خزانے کی قیمت کا صحیح تخمینہ لگایا جائے۔

مشہور ہے کہ خزانے کی قیمت ٹھیک اس رقم کے برابر نکلی جو اہرام کا طاق کھولنے کی مہم پر لگی تھی اور اس میں ایسی بات مشہور ہو جانے میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اس پر بھی تعجب نہ ہونا چاہئے کہ یہ بات حسابات مکمل ہونے سے پہلے ہی مشہور ہوگئی تھی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں وہ میر محاسب فراموش کر دیا گیا جس کے ذمے یہ دونوں حساب کتاب تھے۔

اس کے بارے میں مشہور تھا کہ خلیفہ کی مملکت میں ریت کے ذرّوں تک کا شمار رکھتا ہے۔ حساب کی فردوں کے پلندے اس کے آگے رکھے جاتے اور وہ ایک نظر میں ان کے میزان کا اندازہ کر لیتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جمع تفریق کی غلطیاں اپنے آپ کاغذ پر اچھل کر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ اس لئے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت سے لوگ خلیفہ سے زیادہ اس کے میر محاسب سے خوف زدہ رہتے تھے۔ دارُالخلافہ کے لوگ ایک دوسرے کو کبھی ہنسانے کے لئے، کبھی ڈرانے کے لئے بتاتے تھے کہ میر محاسب کے دل میں جذبوں کی جگہ اور اس کے دماغ میں خیالوں کی جگہ اعداد بھرے ہوئے ہیں۔ اور یہ بات بلکہ وہ بات جس کی طرف یہ بات اشارہ کرتی ہے، کچھ بہت غلط بھی نہیں تھی، کم سے کم اس حساب کی رات تک۔

اس رات اس کے سامنے دونوں حسابوں کی فردیں کھلی رکھی تھیں اور اس نے ایک نظر میں اندازہ کر لیا تھا کہ دونوں حساب قریب قریب برابر ہیں۔ تاہم اس نے ضروری سمجھا کہ دونوں فردوں کی ایک ایک مد کو غور سے دیکھ لے۔ اس کے مستعد ماتحتوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ اندراجات کئے تھے۔ کسی بھی مد کی رقم میں کوئی کمی بیشی نہیں تھی۔ حاصل جمع نکالنے کے لئے اس نے مرتبان والے خزانے کی فرد پہلے اٹھائی۔ لیکن جب وہ حاصل جمع لکھنے لگا تو اس کا قلم رکا اور اسے محسوس ہوا کہ اس نے جوڑنے میں کہیں غلطی کر دی ہے۔ اس نے پھر حساب جوڑا اور دیکھا کہ اب حاصل جمع کچھ اور ہے، لیکن اس کو پھر غلطی کر جانے کا احساس ہوا اور اس نے پھر حساب جوڑا اور حاصل جمع کو کچھ اور ہی پایا۔ آخر اس فرد کو ایک طر ف رکھ کر اس نے طاق کھولنے کی مہم والی فرد اٹھائی، مگر یوں جیسے اپنے کسی شبہے کی تصدیق چاہتا ہو، اور واقعی اس فرد کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ اس کے سامنے دو فردیں اورچھ سات یا اورزیادہ حاصل جمع تھے۔ الجھے ہوئے دماغ کے ساتھ فردوں کو یوں ہی چھوڑ کر وہ باہر نکل آیا۔ کوئی سوال اس کو پریشان کررہا تھا۔ کوئی سوال اس تک پہنچنا چاہتا تھا لیکن اعداد کے ہجوم میں اسے راستہ نہیں مل رہا تھا۔

باہر چاندنی میں کھڑے کھڑے جب اس کے پاؤں شل ہونے لگے اورہتھیلیوں میں خون اتر آیا تب اسے احساس ہوا کہ اعداد کا ہجوم اس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ دور ہوتے ہوئے اعداد اسے انسانوں کی ٹولیوں کی طرح نظر آرہے تھے۔ اس نے دیکھا کہ دو اور دو ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلے جا رہے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے ان کا حاصل جمع ہے، جسے وہ پہچان نہیں پایا کہ چار ہے یا کچھ اور۔ اس آخری ٹولی کے گزر جانے کے بعد وہ اندر واپس آیا۔ اس نے دونوں فردوں کو تلے اوپر رکھ دیا اور سوچنے لگا کہ ان کا حاصل جمع ایک نکلے گا یا الگ الگ؟ پھر سوچنے لگا کہ خود وہ دونوں کو ایک چاہتا ہے یا الگ الگ؟ اور پھر یہ کہ خلیفہ کیا چاہتا ہے؟ تب اچانک اس کو پتا چلا کہ یہی وہ سوال ہے جو اعداد کے ہجوم میں راستہ ڈھونڈ رہا تھا، خلیفہ کیا چاہتا ہے؟

باقی ماندہ رات اس نے یہی سوچتے ہوئے گزار دی کہ خلیفہ کیا چاہتا ہے۔ صبح ہوتے اسے نیند آگئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ خلیفہ اور فرعون ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اہرام کی پرچھائیں کے سرے کی طرف جارہے ہیں اور اہرام کی چوٹی پر کوئی نہیں ہے۔ اس نے سوتے ہی میں سمجھ لیا کہ خواب دیکھ رہا ہے، اور اپنی آنکھ کھل جانے دی۔

دن ڈھل رہا تھا جب اس نے دونوں فردوں کو جلا کر راکھ کیا، اپنے ایک غلام کا خچر کسا، غلام ہی کی پوشاک پہنی اور باہر نکلا۔ بازاروں میں بے فکر ے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، ٹولیاں بنائےگشت کر رہے تھے۔ اس دن شہر میں گفتگو کا ایک ہی موضوع تھا، سب ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ طاق کھولنے کی مہم پر صرف ہونے والی رقم اور مرتبان کے خزانے کی قیمت میں ایک جو کا فرق بھی نہیں نکلا ہے اور یہ کہ یہ حساب میر محاسب کا نکالا ہوا ہے جو خلیفہ کی مملکت میں ریت کے ذرّوں کا شمار رکھتا ہے۔

وہ واپس لوٹنے کے لئے گھر سے نہیں نکلا تھا۔ اس نے خچر کو ایڑ لگائی، بازاروں کو پیچھے چھوڑا اور خود کو اس بیابان میں گم کر دیا جہاں ہوا میں ریت کے ذرّے چنگاریوں کی طرح اڑتے ہیں اور زمین پر اہرام اپنا مخروطی سایہ ڈالتا ہے۔

Comments

- Advertisement -