اتوار, ستمبر 29, 2024
اشتہار

مشہور شاعر استاد قمر جلالوی کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

قمر جلالوی اردو شاعری کی جملہ اصنافِ‌ سخن پر قدرت رکھتے تھے۔ انھیں اردو کے نام ور اور استاد شعرا میں‌ شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی معاش کے لیے مشقّت اور محنت کے ساتھ سخن گوئی میں تمام ہوئی۔ قمر جلالوی نے 24 اکتوبر 1968ء کو وفات پائی۔

اردو میں کلاسیکی رنگ میں‌ اپنی غزل گوئی کے لیے مشہور قمر جلالوی کا اصل نام محمد حسین عابدی تھا۔ 1884ء میں انھوں نے قصبہ جلالی ضلع علی گڑھ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی عمر ہی سے شاعری کا شوق ہو گیا تھا۔ کم عمری میں شاعری کا آغاز کیا اور نوجوانی ہی میں‌ اصلاح دینے لگے تھے۔ ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد تقسیم کے بعد بھی پاکستان اور بھارت میں‌ موجود تھی۔

قیامِ پاکستان کے بعد استاد قمر جلالوی نے ہجرت کرکے کراچی میں رہائش اختیار کی۔ وہ یہاں‌ ادبی حلقوں اور مشاعروں‌ میں اپنے ترنم اور کلاسیکی رنگ میں اپنی شاعری کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ انھیں ہر مشاعرے میں مدعو کیا جاتا تھا۔

- Advertisement -

ضلع علی گڑھ میں ان کی بائیسکل کی دکان تھی اور یہی ان کی روزی کا ذریعہ تھا۔ کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد بھی روزی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے سائیکل کی دکان کر لی۔

قمر جلالوی کو سلاستِ کلام نے اپنے دور کا مقبول شاعر بنا دیا تھا۔ طویل بحروں میں‌ بھی انھوں نے روایتی مضامین کو نہایت خوبی سے نبھایا ہے، ان کی شاعری میں دہلی اور لکھنؤ، دونوں دبستانِ شاعری کی چاشنی ملتی ہے۔ استاد قمر جلالوی کے شعری مجموعے اوجِ قمر، رشکِ قمر، غمِ جاوداں اور عقیدتِ جاوداں کے نام سے شایع ہوئے۔

اردو کے اس مشہور شاعر کو کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی ایک مشہور غزل اور چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

غزل
اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں

آج آئے ہو تم کل چلے جاؤ گے یہ محبت کو اپنی گوارہ نہیں
عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں

گلستاں کو جب بھی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں

ظالمو اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وہ یقیناً سنے گا صدائیں مری کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں

اپنی زلفوں کو رخ سے ہٹا لیجیے مرا ذوق نظر آزما لیجیے
آج گھر سے چلا ہوں یہی سوچ کر یا تو نظریں نہیں یا نظارہ نہیں

جانے کس کی لگن کس کے دھن میں مگن ہم کو جاتے ہوئے مڑ کے دیکھا نہیں
ہم نے آواز پر تم کو آواز دی پھر بھی کہتے ہو ہم نے پکارا نہیں

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو

دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں