قرۃ العین حیدر اردو ادب کا ایک بڑا نام تھا اور ایک ناول نگار کی حیثیت سے ان کی وجہِ شہرت بالخصوص ان کے سوانحی ناول ہیں جن میں ان کا منفرد انداز، تاریخی اور سماجی شعور قارئین کی توجہ حاصل کر لیتا ہے۔ انھیں اہلِ علم و دانش ہی نہیں پاک و ہند میں موجود ان کے قارئین بھی عینی آپا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
یہاں ہم ابوالکلام قاسمی کی ایک تحریر سے دو پارے نقل کررہے ہیں جس میں وہ عینی آپا سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے وہ باتیں رقم کررہے ہیں جو ان کی یادوں میں محفوظ ہیں۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں:
ایک بار دردانہ نے انھیں (عینی آپا) کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا۔ اس زمانے میں ہمارا گھر محض دو چھوٹے چھوٹے کمروں اور ایک ناکافی ورانڈے پر مشتمل تھا۔ پہلے سے تو انھوں نے کھانے میں نمک نہ ڈالنے یا سبزی اور گوشت کے بارے میں اپنی پسند و ناپسندیدگی پر متعدد ہدایات دے دی تھیں مگر جب آئیں تو حد درجہ خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتی رہیں۔ دروازے کی چوکھٹ، کمروں کے دروازوں اور ریفریجریٹر وغیرہ پر جو آیتیں اور دعائیں لگائی گئی تھیں ان کو پڑھتیں اور مجھ سے ان کے معنی دریافت کرتی رہیں۔ ویسے ان آیتوں اور دعاؤں کا ہلکا سا مفہوم ان پر پہلی نظر میں واضح بھی لگتا تھا۔ پھر بولیں کہ خدا کا شکر ہے کہ کوئی تحریر بے موقع اور نامعقولیت سے نہیں لگی ہوئی۔ بھئی تم تو خاصے معقول آدمی ہو۔ چوکھٹ پر گھر کی حفاظت، دروازوں پر عام صحت و عافیت اور فریج پر رزق سے متعلق آیتوں کو پڑھ کر انھیں خوب اندازہ ہو گیا تھا کہ جو آیت جس جگہ تھی اسے وہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ معمولی معمولی باتوں سے انسان کے معمولات اور رویوں کے بارے میں گہرائی سے رائے قائم کیا کرتی تھیں۔
ابوالکلام قاسمی نے ایک قصّہ یوں رقم کیا:
ایک بار مجھے عینی آپا کے ساتھ یونیورسٹی کے رجسٹرار آفس جانے کا اتفاق ہوا۔ شاید امتحان کے کسی کام کے معاوضے کا معاملہ تھا۔ (پیسے وغیرہ کے معاملے میں وہ اپنے واجبات کو کبھی ثانوی حیثیت نہ دیتی تھیں) وہ تھوڑی دیر بیٹھی رہیں اور ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہنے لگیں کہ شاید یہ وہی عمارت ہے جو بچپن ہمارا گھر ہوا کرتا تھا، جس میں میری پیدائش ہوئی تھی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار کی کوٹھی سچ مچ وہی تھی جس میں کئی سال تک یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار سجاد حیدر یلدرم قیام پذیر رہ چکے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ میرا حافظہ یوں تو بہت اچھا نہیں مگر جیسا بھی ہے، ہے فوٹو جینک ہے۔ یعنی ان کی یادیں تصویری شکلوں میں ان کے حافظے میں محفوظ رہا کرتی تھیں۔ یادوں کی بازگشت کے اس عمل کی انوکھی کارفرمائی ان کی تحریروں میں جگہ جگہ بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔