جمعہ, اپریل 18, 2025
اشتہار

رابعہ نے ‘غیرت مند’ رشتے داروں کے ہاتھوں اپنے کیے کا ‘خمیازہ’ بھگت لیا

اشتہار

حیرت انگیز

مصنّف:‌ سدرہ ایاز

رابعہ کا ‘جرم’ پسند کی شادی کرنا تھا۔ اور اسے اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ رابعہ کو مانسہرہ کے علاقے جابہ میں اس کے گھر میں قتل کردیا گیا۔ 4 اپریل کے اس درد ناک واقعے میں ‘قصور وار’ رابعہ کو ہی نہیں اس کی ڈیڑھ سالہ معصوم بیٹی کو بھی گولیاں‌ مار دی گئیں۔ معصوم بچی کو اس کا باپ اپنے کنبے کی کفالت کی خاطر اُس وقت پنگوڑے میں‌ چھوڑ گیا تھا جب وہ صرف دو ماہ کی تھی۔

دہرے قتل کے اس واقعے کا مقدمہ درج کر کے دو ملزمان بھی دھر لیے گئے ہیں۔ مقتولہ کی ساس نے پولیس کو بتایا ہے کہ ان کی بہو سفاک اور بے رحم قاتلوں کو کہتی رہی کہ اس کی بیٹی کو کچھ نہ کہو، مگر انھیں اس معصوم پر ترس نہیں آیا اور ننھی کلی کو بھی روند کر چلے گئے۔ وہ ‘غیرت مند ‘جو تھے!

رابعہ نے محمد عمر نامی شخص سے کورٹ میرج کی تھی کیوں کہ اس کا خاندان اس شادی پر رضا مند نہیں تھا۔ 2022 میں کورٹ میرج کے بعد یہ کنبہ کراچی میں قیام پذیر تھا اور وہیں رابعہ کے شوہر نے بہتر مستقبل کی خاطر سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بیوی مانسہرہ میں اپنے سسرال منتقل ہو گئی اور وہیں رابعہ اور اس کی بیٹی کو رشتے داروں‌ نے قتل کردیا۔

سوچتی ہوں کہ یہ غیرت ہمیشہ اسی وقت کیوں جاگ اٹھتی ہے جب لڑکی پسند کی شادی کے لیے گھر والوں‌ کے انکار پر مجبوراً کورٹ میرج کرتی ہے۔ عزت و آبرو اور خاندانی وقار پر دھبہ کیوں لگتا ہے جب لڑکی سنت کے مطابق نکاح کر کے زندگی کا نیا سفر شروع کرتی ہے۔ کوئی خونی رشتہ دار یا خاندان کا کوئی ‘غیرت مند’ ایسی لڑکی کو قتل کیوں کردیتا ہے۔ اس میں بنیادی وجہِ عداوت کورٹ میرج اور سببِ شقاوت وہ غیرت ہوتی ہے جس کی تعریف اور تفہیم بھی ایسے ‘آبرو مند’ مرد من چاہی اور حسبِ خواہش ہی کرتے رہے ہیں۔

والدین، بھائیوں، چچا ماموں یا دوسرے خونی رشتوں کو کبھی اس بات پر بھی شدید تکلیف ہوتی ہے جب خاندان میں کسی لڑکی کا جائیداد میں حق مارا جاتا ہے یا اس کے ساتھ کوئی بڑی ناانصافی کی جاتی ہے۔ کسی لڑکی کو جب ماں باپ کے انتقال کے بعد اس کے ظالم بھائی، چچا یا ماموں وغیرہ گھر سے نکال دیں اور زمین یا مال ہتھیا لیں تو کیا خاندان کا کوئی ‘غیرت مند’ اس کا مقدمہ لڑنا چاہتا ہے اور جوش میں آکر قتل جیسا انتہائی قدم بھی اٹھا سکتا ہے؟ ایسا کوئی واقعہ یا خبر میں‌ نے تو نہیں سنی۔

اسلام عورت کو پسند کی شادی کا حق دیتا اور یہ وہ بات ہے جسے کوئی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا اور نیم خواندہ شخص بھی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن مردوں کے اس معاشرے میں چوں کہ غیرت کی تعریف، اور اس کی تفہیم کرتے ہوئے صرف مرد ہی بوقتِ ضرورت خود کو غیرت مند ثابت کر سکتا ہے، اس لیے اسلامی تعلیمات پر غور کرنے اور قانون کو سمجھنے کی شاید ضرورت ہی نہیں ہے۔

عربی زبان کا یہ لفظ ہمیں لغت میں ملتا ہے جس کا ایک معنی احساس عزت، عزت نفس کا لحاظ ، مقدس اور محبوب شے کا خیال رکھنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جلن حسد اور رقابت کا احساس بھی اسی لفظ سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ معاشرہ میں کوئی انسان ان اوصاف کی بنا پر خود کو مثبت اور تعمیری سوچ کا حامل ثابت نہیں کرسکتا، اس لیے من چاہی تفہیم کی جاتی رہی ہے۔ یہ لفظ اور اس سے جڑا ہوا مخصوص تصور ہمارے خطے میں صدیوں سے عورت کو کچلتا، پامال کرتا اور اس کی جان لیتا رہا ہے اور آج کے جدید دور میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

اس پدر سری معاشرے میں عورت پر آج بھی اپنی حاکمیت کی دھونس جمانے اور برتری قائم رکھنے کے لیے غیرت کے روایتی تصور کو برقرار رکھا گیا ہے۔ عورت طلاق کا مطالبہ کرے تو بھی مرد کی غیرت پر حملہ ہوتا ہے اور مرضی کی شادی کرنا چاہے تو باپ اور بھائی کی عزت اور آبرو پر حرف آتا ہے جس سے بچنے کے لیے وہ اپنی ہی بیٹی اور بہن کو قتل کر سکتے ہیں۔

ملک میں‌ غیرت کے قانون سے متعلق دستیاب معلومات کے مطابق 2004 میں ‌حکومت نے ایسے جرائم کو حکومت کے خلاف جرم قرار دیا تھا۔ بدقسمتی سے پسند کی شادی اور دوسرے معاملات میں‌ عورت کا غیرت کے نام پر قتل بھی معافی اور خوں بہا سے منسلک رہا ہے جس کا فائدہ اسی کو ہوتا ہے جس نے خاندان کی آبرو کے نام پر عورت کا قتل کیا ہو۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس قاتل کو مقتولہ کے دوسرے رشتے دار معاف کر دیتے ہیں اور وہ عدالت سے بری ہو جاتا ہے۔ 2016 میں اس قانون میں مزید ترامیم کی گئیں مگر اس وقت تک ترامیم میں معافی اور ازالے کی شقیں واپس نہیں لی گئی تھیں البتہ جج کی صوابدید بڑھا دی گئی تھی۔

ہم دیکھتے ہیں‌ کہ پسند کی شادی کرنے پر قتل ہونے والی لڑکیوں کی اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں، ناخواندہ یا قبیلہ اور برادری نظام کے تحت چلنے والے خاندانوں سے ہوتا ہے۔ شہری علاقوں‌ میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں مگر ان کی شرح کم ہوسکتی ہے۔ بہرحال، اس حوالے سے سخت قوانین اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانے کے علاوہ حکومتی سطح پر خاندانی نظام یا برادری سسٹم کی قیادت کے توسط سے لوگوں کو اس ظلم کے خلاف شعور دینے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کو سمجھانا ہوگا کہ کوئی بھی عاقل و بالغ لڑکی اپنے شریک حیات کا انتخاب خود کر سکتی ہے اور اسے پسند کی شادی کرنے کا حق اسلام نے دیا ہے۔ حکومتی وفد ایسے علاقوں میں بھیجے جائیں جہاں ان واقعات کی شرح زیادہ ہے۔ اس حوالے سے کوئی جامع پروگرام ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی اراکین کی جانب سے مذمت کی جانی چاہیے اور اس کی میڈیا پر تشہیر بھی لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لاسکتی ہے۔

شادی جیسا اہم فیصلہ کرتے ہوئے اولاد کو چاہیے کہ اپنے والدین اور خاندان کے بزرگوں کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے سائے میں نئی زندگی کا آغاز کریں لیکن جب صورت حال مختلف ہو اور لڑکی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہو اور ایسی کوئی وجہ نظر نہ آتی ہو جس سے اس کا مستقبل خراب ہوسکتا ہے تو خاندان کو بھی اس کی خوشی کا احترام کرنا چاہیے۔ آخر پسند کی شادی کے بعد والدین اور گھر والے کسی لڑکی کو اپنا رشتہ نبھانے اور ازدواجی زندگی کو پائیدار بنانے میں اس کا ساتھ کیوں نہیں دے سکتے۔ کیا ایسی لڑکی سے جینے کا حق چھین لینا ہی غیرت ہے؟

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں